سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(440) نشئی کی طلاق

  • 20088
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 937

سوال

(440) نشئی کی طلاق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے شراب کے نشہ میں مدہوش اپنی بیوی کو طلاق دے دی، جب اسے ہوش آیا تو اسے بتایا گیا کہ تو نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے تو اس نے سراسر انکار کر دیا کہ مجھے اس کا علم نہیں، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ نشہ اور بیماری کی مدہوشی میں طلاق ہو جاتی ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طلاق کے لیے ضروری ہے کہ خاوند طلاق دیتے وقت خود مختار، مکلف اور کامل ہوش و حواس میں ہو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طلاق اور آزادی اغلاق میں نہیں ہوتی۔ [1]

 محدثین نے اغلاق کے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔

1) زبردستی لی جانے والی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

2) شدید غصے اور سخت نشہ میں جب انسان کی عقل پر پردہ پڑ جائے تو ایسی صورت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔[2]

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حالت نشہ میں موجود انسان اور مجبور شخص کی طلاق جائز نہیں ہے۔ ایسی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ 3

 امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ پاگل اور بحالت نشہ کی طلاق نہیں ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جس نے نشہ کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دی تھی، انہوں نے فیصلہ کیا کہ اسے شراب کی حد لگائی جائے اور اس کی بیوی کو الگ کر دیا جائے، ان سے حضرت ابان بن عثمان نے بیان کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک مجنون اور نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس کے بعد آپ نے صرف حد لگائی لیکن اس کی بیوی کو اس سے الگ نہ کیا کیونکہ اس حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ [3]

 ہمارے نزدیک نشہ کی حالت میں عقل ماؤف ہونے کے اعتبار سے دیوانگی کی ہی ایک قسم ہے، جنون کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تین آدمی مرفوع القلم ہیں، ایک سونے والا حتیٰ کہ بیدار ہو جائے دوسرا بچہ حتیٰ کہ وہ بالغ ہو جائے تیسرا پاگل حتیٰ کہ عقل مند ہو جائے۔‘‘ [4]

 اس بنا پر نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی لیکن اس بات کا بغور جائزہ لینا ہو گا کہ نشے کی حالت میں جب طلاق دی گئی تھی تو اس وقت نشہ ابتدائی مرحلہ میں تھا یا پورے عروج پر تھا، اگر ابتدائی مرحلہ ہے کہ نشہ کرنے والے کا عقل و شعور پوری طرح ختم نہیں ہوا بلکہ اسے طلاق دینے کا علم تھا تو ایسی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر نشہ کرنے والا ایسی حالت میں ہے کہ اسے عقل و شعور نہیں بلکہ اسے طلاق دینے کا قطعاً علم نہیں تو ایسی حالت میں طلاق واقع نہیں ہو گی، کیونکہ طلاق دھندہ کی عقل ماؤف ہو چکی ہے جبکہ طلاق کے مؤثر ہونے کے لیے بقائم ہوش و حواس ہونا ضروری ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  ابوداود، الطلاق: ۲۱۹۳۔

[2] صحیح بخاری، الطلاق، باب نمبر۱۰۔

[3]  بیہقی، ص: ۳۵۹،ج۷۔    

[4]  نسائی، الطلاق: ۳۴۳۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:371

محدث فتویٰ

تبصرے