سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(436) رضاعی بہن بھائیوں کا نکاح کرنا

  • 20085
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 722

سوال

(436) رضاعی بہن بھائیوں کا نکاح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہسپتال میں دو عورتوں نے بچے جنم دئیے، ایک کے ہاں لڑکی اور دوسری کے ہاں لڑکا پیدا ہوا، جب وہ شادی کے قابل ہوئے تو ان کی آپس میں شادی کرنا طے پایا، لیکن پتہ چلا کہ پیدائش کے دن غلطی سے ایک کا بچہ دوسری کو مل گیا اور ان دونوں نے انہیں دودھ پلایا اور ان کی پرورش کی، اب کیا ان کا آپس میں نکاح ہو سکتا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دیا جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہسپتال میں بچوں کی بایں طور پر تبدیلی ممکن ہے لیکن شادی کا پروگرام طے کرتے وقت اس کا اچانک انکشاف عجیب سا معلوم ہوتا ہے بہرحال اگر یہ کوئی فرضی صورت نہیں ہے تو ایسے جوڑے کا آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق بچے کی ماں وہ ہے جس نے اسے جنم دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا الّٰٓـِٔيْ وَلَدْنَهُمْ١﴾ [1]

’’ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنم دیا ہے۔‘‘

 اس آیت کے پیش نظر جس عورت نے بچے کو جنم دیا ہے وہ اس کی حقیقی ماں ہے، پھر غلطی سے تبادلے کے بعد جس عورت کا اس نے دودھ پیا ہے وہ اس کی رضاعی ماں ہے، اسی طرح بچی کا معاملہ ہے، بہرحال یہ دونوں ایک دوسرے کے رضاعی بہن بھائی ہیں، انہیں کسی صورت میں رشتہ ازدواج میں منسلک نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ دودھ پینے سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو خونی رشتے حرام ہوتے ہیں، جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ [2]


[1]  ۵۸/المجادلہ:۲۔               

[2]  صحیح بخاری، النکاح: ۵۰۹۹۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:369

محدث فتویٰ

تبصرے