سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(434) اخراجات کے متعلق خاوند کی ذمہ داری

  • 20083
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1013

سوال

(434) اخراجات کے متعلق خاوند کی ذمہ داری

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا خاوند مالدار ہونے کے باوجود گھریلو اخراجات کے سلسلہ میں کنجوس واقع ہوا ہے، کیا میرے لیے جائز ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر میں گھریلو اخراجات کے لیے اتنی رقم لے لوں جس سے گھر کا نظام بآسانی چل سکے؟ شریعت میں اس کی کہاں تک اجازت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیوی اور اولاد کا خرچہ خاوند کے ذمے ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ١ وَ مَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُ١ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَا١﴾[1]

’’کشادگی والے کو اپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس پر رزق تنگ کیا گیا ہو اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اس میں سے دے، اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔‘‘

 نیز حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تم پر معروف طریقہ کے مطابق ان عورتوں کو کھلانا پلانا اور لباس مہیا کرنا لازم ہے۔ [2]

 بہرحال شریعت نے خاوند پر خرچہ کی کوئی مقدار مقرر نہیں کی ہے، جتنی ضرورت ہو اور جتنا ان کو کفایت کر جائے اتنا خرچہ دینا واجب ہے، لیکن اگر کوئی خاوند اس خرچہ سے پہلو تہی کرتا ہے یا دیتا تو ہے لیکن اس سے گھر کا نظام نہیں چلتاتو اتنا خرچہ کسی طریقہ سے بھی لیا جا سکتا ہے جو اہل خانہ کے لیے کافی ہو جیسا کہ حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے جو حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابو سفیان ایک کنجوس آدمی ہے، مجھے وہ اتنا خرچہ نہیں دیتا جو میرے لیے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو، مگر میں خفیہ طریقے سے کچھ لے لیتی ہوں کیا ایسا کرنے سے مجھے گناہ نہیں ہو گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’معروف طریقہ سے اتنا مال لے لیا کرو جو تمہیں اور تمہارے بچوں کو کافی ہو جائے۔‘‘[3]

 اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل کا پتہ چلتا ہے:

1) بیوی کے خرچہ کی مقدار متعین نہیں ہے اور نہ اولاد کے لیے کچھ مقرر ہے، دونوں اخراجات معروف طریقہ سے ادا کیے جائیں۔

2) اگر شوہر اور والد اپنے اوپر واجب خرچہ ادا نہ کریں تو بیوی اور اولاد کو اتنا خرچہ لینے کی اجازت ہے جو انہیں کافی ہو۔

3) واجب حقوق میں جس کی مقدار اللہ اور اس کے رسول نے مقرر نہیں کی، اس میں عرف کو ملحوظ رکھا جائے گا۔

 صورت مسؤلہ میں سائلہ کو خاوند کے مال سے معروف طریقہ کے مطابق اتنا لینے کی اجازت ہے جس سے گھر کا نظام چل سکے، لیکن ضروریات کی آڑ میں فضولیات کا دروازہ نہ کھولا جائے اور فیشن پرستی اور فضول خرچی کی گنجائش اس حدیث سے پیدا نہیں ہوتی۔ اگرچہ خرچہ کی مقدار مقرر نہیں ہے کیونکہ مقدار مقرر کرنا ظلم کے مترادف ہے بہرحال جتنی ضرورت ہو اور اس قدر کفایت کی جائے خاوند کے مال سے اجازت کے بغیر لینے کی شرعاً گنجائش ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] ۶۵/الطلاق: ۷۔   

[2] صحیح مسلم، الحج: ۱۲۱۸۔  

[3]  صحیح بخاری، البیوع: ۲۲۱۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:367

محدث فتویٰ

تبصرے