سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(430) وٹہ سٹہ کی شادی کرنا

  • 20079
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 761

سوال

(430) وٹہ سٹہ کی شادی کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسلام میں وٹہ سٹہ کی شادی کی کیا حیثیت ہے؟ وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام میں وٹہ سٹہ کی شادی ناجائز اور حرام ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اسلام میں نکاح شغار (وٹہ سٹہ) کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ [1]

 شغار کی تعریف یہ ہے کہ آپس میں یوں کہا جائے، تو اپنی لڑکی کی شادی مجھ سے اس شرط پر کر دے کہ میں اپنی لڑکی تیرے نکاح میں دیتا ہوں، بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ اس شرط کے ساتھ ساتھ دونوں لڑکیوں کا کوئی الگ حق مہر مقرر نہ کیا جائے۔

 واضح رہے کہ مہر ہونے یا نہ ہونے سے نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ نتائج و عواقب کے لحاظ سے دونوں صورتیں یکساں حکم رکھتی ہیں، اگر ایک لڑکی کا گھر برباد ہوتا ہے تو دوسری بھی ظلم و ستم کا نشانہ بن جاتی ہے، قطع نظر کہ نکاح کے وقت ان کا الگ الگ مہر مقرر کیا گیا تھا یا نہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس طرح کے ایک نکاح کو باطل قرار دیا تھا، حالانکہ ان کے درمیان مہر بھی مقرر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا تھا۔ [2]

 ہمارے نزدیک اس قسم کے نکاح کی تین صورتیں ممکن ہیں:

1) نکاح کا معاملہ کرتے وقت ہی رشتہ لینے دینے کی شرط کر لی جائے۔ یہ صورت بالکل حرام اور ناجائز ہے۔

2) نکاح کے و قت شرط تو نہیں کی البتہ آثار و قرائن ایسے ہیں کہ شرط کا سا معاملہ ہے انجام کے لحاظ سے یہ بھی شغار ہے اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

3) نکاح کے وقت شرط بھی نہیں اور نہ ہی آثار و قرائن شرط جیسے ہیں، اس صورت کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ تبادلہ نکاح محض اتفاقی ہے، اس طرح کے نکاح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں متعدد مرتبہ ہوئے ہیں۔ (واللہ اعلم بالصواب)


[1] صحیح مسلم، کتاب النکاح:۳۴۶۸۔

[2] ابوداود، کتاب النکاح، باب فی الشغار:۲۰۷۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:365

محدث فتویٰ

تبصرے