السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت اپنے خاوند سے خلع لیتی ہے، پھر رجوع کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے، کیا خلع کے بعد رجوع ہو سکتا ہے نیز زندگی میں کتنی مرتبہ عورت کو خلع لینے کا حق ہے؟ طلاق کے لیے تو تین کی تحدید ہے، خلع کی تحدید بھی ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کے مطابق جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میاں بیوی کے لیے دو قسم کی علیحدگی ایسی ہے کہ وہ عام حالات میں دوبارہ ازدواجی زندگی گزارنے کے اہل نہیں رہتے، ایک تو وقفہ وقفہ سے تین طلاق دینا، اس صورت میں وہ صلح نہیں کر سکتے ہاں اگر تیسری طلاق کے بعد بیوی کسی دوسرے شخص سے اس کے گھر آباد ہونے کا ارادہ لے کرنکاح کرتی ہے پھر وہ فوت ہو جاتا ہے یا اسے طلاق دے دیتا ہے تو عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے۔ دوسری علیحدگی جو لعان کے بعد عمل میں آئے تو ایسے میاں بیوی زندگی میں کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے، البتہ خلع کے بعد بیوی اگر مؤقف سے دستبردار ہو جاتی ہے تو نئے نکاح سے وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو سکتے ہیں، لیکن خلع کے بعد نکاح کرنے کی صورت میں پھر دوبارہ خلع کا پروگرام بنانا اللہ کی شریعت کو کھلونا بنانے کے مترادف ہے، ہمارے رجحان کے مطابق خلع بھی ایک قسم کی طلاق ہے بلکہ طلاق سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ کیونکہ ایک یا دو طلاق کے بعد دوران عدت تجدید نکاح کے بغیر رجوع کیا جا سکتا ہے ، لیکن خلع کے بعد تو تجدید نکاح کے بغیر رجوع ممکن ہی نہیں ہے، اس لیے عورت کو زیادہ سے زیادہ زندگی میں دو خلع لینے کا حق ہے جس کے بعد رجوع کیا جا سکتا ہے وہ بھی تجدید نکاح کے ساتھ لیکن تیسری دفعہ خلع لینے کے بعد ہمیشہ کے لیے معاملہ ختم ہو جائے گا، اگرچہ قرون اولیٰ میں اس قسم کا کوئی واقعہ ہماری نظر سے نہیں گزرا تاہم دیگر اشباہ و نظائر کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارا یہ رجحان ہے کہ طلاق کی طرح خلع کی تعداد بھی مقرر ہونی چاہیے جو زیادہ سے زیادہ تین ہے، تین دفعہ خلع لینے کے بعد معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم ہونا چاہیے۔ (واللہ اعلم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب