السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ایک عزیز نے اپنی بیوی کو طلاق دی جبکہ وہ تین ماہ کی حاملہ تھی، طلاق کے بعد والدین نے اسقاط حمل کرا دیا، اس کے بعد اسے دو دفعہ حیض بھی آ چکا ہے، اب دونوں میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے شرعاً کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث کے مطابق جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مختلف حالات کے پیش نظر طلاق یافتہ بیوی کی عدت تین حیض یا وضع حمل یا نوے دن ہے۔ صورت مسؤلہ میں بیوی، طلاق کے وقت حمل سے تھی۔ جس کی عدت بچہ جنم دینے تک ہے لیکن اس کے والدین نے اس کا حمل گرا کر اپنے ذمے قتل ناحق کا جرم لیا ہے جو ہمارے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے، انہیں اس سنگین جرم پر اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔ ہم لوگ اپنی اولاد سے خیر خواہی کے جوش میں اللہ کی حدود کو فراموش کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ مذکورہ واقعہ میں ہوا ہے۔ ہمارے نزدیک میاں بیوی اب بھی رجوع کر سکتے ہیں۔ لیکن اس رجوع کے لیے تجدید نکاح کرنا ہو گا، جس کے لیے بیوی کی رضا مندی، سر پرست کی اجازت، حق مہر کی از سر نو تعیین، گواہوں کی موجودگی بنیادی شرائط ہیں۔ ہم اسقاطِ حمل کو وضع حمل تو شمار نہیں کرتے تاہم طلاق ملنے کے بعد اسقاط حمل کی مدت کو عدت میں ضرور شمار کیا جائے جو کم از کم ایک ماہ سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے، اسقاط کے بعد اسے دو مرتبہ حیض بھی آ چکا ہے، اس طرح پہلی مدت اور دو حیض ملا کر وہ اپنی عدت ختم کر چکی ہے، عدت کے بعد نکاح خود بخود ختم ہو جاتا ہے، ایسے حالات میں تجدید نکاح سے رجوع ممکن ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ١ ﴾[1]
’’اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں اپنے پہلے خاوندوں سے نکاح کرنے میں رکاوٹ نہ بنو، جبکہ وہ معروف طریقے سے آپس میں نکاح کرنے پر راضی ہوں۔‘‘
ہمارے رجحان کے مطابق میاں بیوی رجوع کر سکتے ہیں لیکن یہ رجوع تجدید نکاح کے بغیر نہیں ہو گا، آیندہ اس قسم کے حالات نہ پیدا ہونے دئیے جائیں۔ نیز والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے رویے پر نظر ثانی کریں، اولاد سے محبت کرتے ہوئے اللہ کے غضب کو نہ دعوت دی جائے۔ اللہ ہمیں صالح عمل کرنے کی توفیق دے۔
[1] ۲/البقرة: ۲۳۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب