سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(425) باب کا بیٹے کی ساس سے نکاح کرنا

  • 20074
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2046

سوال

(425) باب کا بیٹے کی ساس سے نکاح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک نوجوان کا کسی دوشیرہ سے نکاح ہو گیا، اس کے بعد اس نوجوان کی والدہ محترمہ وفات پا گئیں جبکہ اس کا سسر نکاح سے پہلے انتقال کر چکا تھا تو کیا اس نوجوان کا باپ اس کی ساس سے نکاح کر سکتا ہے؟ شریعت کی رو سے جواز ممانعت واضح فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کریم نے تفصیل سے وضاحت کی ہے کہ کن کن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے، ان میں سات خونی، دو رضاعی اور تین سسرالی رشتہ دار خواتین ہیں، اسی طرح بیک وقت دو بہنوں کو اپنے عقد میں رکھنا بھی حرام قرار دیا ہے نیز شادی شدہ منکوحہ عورت سے بھی نکاح حرام ہے، احادیث میں مزید دو رشتوں کی ممانعت کا ذکر ہے کہ پھوپھی، بھتیجی اور خالہ، بھانجی کو بیک وقت نکاح میں نہیں رکھا جا سکتا، ان محرمات میں بیٹے کی ساس کا کوئی ذکر نہیں ہے لہٰذا اس سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، قرآن کریم میں ہے:

﴿وَأُحِلَّ لَكُم ما وَراءَ ذ‌ٰلِكُم أَن تَبتَغوا بِأَمو‌ٰلِكُم مُحصِنينَ غَيرَ مُسـٰفِحينَ ...﴿٢٤﴾... سورةالنساء

’’ان کے ماسوا جتنی بھی عورتیں ہیں انہیں اپنے مال کے ذریعے حاصل کرنا تمہارے لیے جائز قرار دیا گیا ہے بشرطیکہ اس سے تمہارا مقصد نکاح میں لانا ہو، محض شہوت زنی نہ ہو۔‘‘

 صورتِ مسؤلہ میں نوجوان کا باپ اس کی ساس سے نکاح کر سکتا ہے شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:362

محدث فتویٰ

تبصرے