سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(419) نکاح کے ساتویں ماہ لڑکا جنم دینا

  • 20068
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 573

سوال

(419) نکاح کے ساتویں ماہ لڑکا جنم دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری بیوی نے نکاح کے ساتویں ماہ لڑکا جنم دیا ہے، میرے دل میں اس کے متعلق بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں، ویسے بیوی کی بدچلنی ظاہر نہیں ہوئی، اب میرے لیے کیا حکم ہے، اسے چھوڑ دوں یا اپنے گھرمیں آباد رکھوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی کی عزت و ناموس کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرنا شریعت میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے، پھر اپنی رفیقۂ حیات کے بارے میں اس قسم کے خیالات ذہن میں لانا جس سے اس کی آبرو مجروح ہوتی ہو بہت برا فعل ہے، جب کہ خاوند کو اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ بیوی کی بدچلنی ظاہر نہیں ہوئی، ایسے حالات میں بیوی کے متعلق بدگمانی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ شریعت نے نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ جنم دینے کو جائز قرار دیا ہے اور اسے حلال کا بچہ شمار کیا ہے، کیونکہ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا١﴾[1]

’’اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس (۳۰) ماہ ہے۔‘‘

 اور دوسرے مقام پر اس کے دودھ چھڑانے کی مدت دو سال یعنی چوبیس ماہ قرار دی گئی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَّ فِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ﴾[2]

’’اور اس کی دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ہے۔‘‘

 ان دونوں آیات کے مطابق اگر تیس ماہ سے دودھ چھڑانے کی مدت دو سال یعنی چوبیس ماہ نکال دی جائے تو باقی مدت چھ ماہ رہ جاتی ہے جو حمل کی مدت ہے، اس سے ثابت ہو اکہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے۔ لہٰذا اگر کوئی عورت نکاح کے ساتویں ماہ میں بچہ جنم دیتی ہے جیسا کہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے تو اس میں کسی قسم کے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] ۴۶/الاحقاف: ۱۵۔ 

[2] ۳۱/لقمان:۱۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:357

محدث فتویٰ

تبصرے