السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وہ کون سے امور ہیں جن کے پیش نظر خاوند کی طلاق کا اعتبار نہیں کیا جاتا اور اس کے طلاق دینے کے باوجود بیوی مطلقہ نہیں ہوتی؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب شوہر عاقل، بالغ اور مکلف و مختار ہو تو اس کی طلاق کا اعتبار کیا جاتا ہے اور اس کی طلاق سے بیوی مطلقہ ہو جاتی ہے، اس کے برعکس اگر نابالغ ہے یا حالت نشہ میں ہے یا وہ اس قدر شدید غصہ میں ہو کہ طلاق کے نقصان کو سمجھنے سے عاجز ہو جائے اور اسے مدہوش کر دے تو ایسے حالات میں اس کی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’تین شخص مرفوع القلم ہیں، سویا ہوا آدمی حتیٰ کہ وہ بیدار ہو جائے، بچہ حتیٰ کہ وہ بالغ ہو جائے اور مجنون حتیٰ کہ وہ سمجھنے لگے۔‘‘ [1]
اسی طرح جو شخص مجبور ہو اور اس سے زبردستی طلاق لی گئی ہو، اس کی طلاق کا بھی اعتبار نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’زبردستی طلاق اور جبری آزادی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔‘‘ [2]
اہل علم نے ’’اغلاق‘‘ کا یہ معنی کیا ہے کہ زبردستی اور شدید غصہ کی حالت کو اغلاق کہا جاتا ہے، اسی طرح ایسے شخص کی طلاق کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہے جو نشہ میں مدہوش ہو، ایسا نشہ کہ عقل کو ماؤف کر دے اگرچہ نشہ کی وجہ سے گنہگار ہو گا لیکن اس کی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ (واللہ اعلم)
[1] ترمذی، الحدود: ۱۴۲۳۔
[2] ابوداود: ۲۱۹۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب