سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(409) رخصتی سے قبل طلاق ہونے پر حق مہر لینا

  • 20058
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1822

سوال

(409) رخصتی سے قبل طلاق ہونے پر حق مہر لینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری ہمشیرہ کا نکاح ہوا لیکن رخصتی سے قبل ہی اسے طلاق ہو گئی، کیا وہ حق مہر لینے کی مجاز ہے؟ نیز وہ کب عقد ثانی کر سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مطلقہ عورت کے حق مہر کی ادائیگی کے متعلق شرعی طور پر چار صورتیں ممکن ہیں۔

1) حق مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور صحبت سے پہلے اسے طلاق ہو گئی، اس صورت میں خاوند کو چاہیے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے کیونکہ رشتہ ازدواج جوڑنے کے بعد صحبت سے پہلے ہی طلاق دینے سے عورت کو جو نقصان ہوا ہے، اس کی کسی حد تک تلافی ہو سکے۔

2) حق مہر مقرر ہو چکا تھا لیکن صحبت سے پہلے اسے طلاق مل گئی تو خاوند کے ذمے طے شدہ حق مہر کا نصف ادا کرنا ہو گا، الا یہ کہ مطلقہ بیوی از خود اسے معاف کر دے۔ قرآن مجید میں اس کی صراحت ہے۔ [1]

3) مہر بھی مقرر ہو اور صحبت یا خلوت میسر آنے کے بعد طلاق ہوئی تو اس صورت میں خاوند کے لیے ضروری ہے کہ وہ پورا حق مہر ادا کرے، عام طور پر یہی صورت پیش آتی ہے۔

4) مہر طے نہیں ہوا تھا مگر صحبت یا خلوت کے بعد طلاق واقع ہوئی، اس صورت میں مہر مثل ادا کرنا ہو گا یعنی اتنا حق مہر جو اس عورت کے قبیلہ میں عام طور پر رائج ہے۔

 صورت مسؤلہ میں اگر حق مہر طے شدہ ہے تو اس کا نصف بیوی کو ملے گا الا یہ کہ وہ فیاضی سے کام لیتے ہوئے نصف حق مہر بھی معاف کر دے یا خاوند سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نصف کے بجائے پورا حق مہر ادا کر دے، اجتماعی زندگی میں خوشگواری پیدا کرنے کے لیے اس قسم کی فیاضی ضروری ہے۔ البتہ ایسی عورت طلاق ملتے ہی عقد ثانی کرنے کی مجاز ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے۔ [2]


[1]  ۲/البقرۃ: ۲۳۷۔        

[2] ۳۳/الاحزاب: ۴۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:351

محدث فتویٰ

تبصرے