سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(408) بے نماز کے ساتھ نکاح کرنا

  • 20057
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 754

سوال

(408) بے نماز کے ساتھ نکاح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا بے نماز کو اپنی بیٹی یا بہن کا رشتہ دینا جائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بچیوں کے نکاح اور اس کے معیار کے متعلق کتاب و سنت میں بڑی کھلی ہدایات ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’عورت سے چار چیزوں کی بنا پر نکاح کیا جاتا ہے، اس کے مال کی وجہ سے، اس کے حسب کی وجہ سے، اس کی خوبصورتی اور حسن و جمال کی وجہ سے اور اس کے دین و اخلاق کی وجہ سے۔ تم دیندار عورت سے نکاح کرنے میں کامیابی حاصل کرو۔‘‘[1]

 یہ حدیث اس امر کی واضح دلیل ہے کہ نکاح کے سلسلہ میں دین اور اخلاق کے پہلو کو ترجیح دی جائے۔ ایک دوسری حدیث میں اس کی مزید تفصیل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کے دین و اخلاق کو پسند کرتے ہو تو اسے نکاح دے دو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ و فساد پیدا ہو گا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر اس میں کوئی بات موجود ہو تو آپ نے پھر اپنی بات کو دہراتے ہوئے فرمایا: ’’جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کے دین و اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اسے نکاح دے دو۔ آپ نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی۔‘‘ [2]

 صورت مسؤلہ میں بے نماز شخص اس معیار کا حامل نہیں ہے، ہاں اگر رشتہ طلب کرنے والا نماز باجماعت ادا نہیں کرتا تو وہ فاسق، اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان ہے نیز وہ مسلمانوں کے اجماع کا بھی مخالف ہے۔ تاہم اس سے وہ دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا، ایسے شخص کو بیٹی یا بہن کا رشتہ دیا جا سکتا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں اگر دوسرے رشتے ملیں جو دینی اعتبار سے بہتر ہوں تو انہیں ترجیح دی جائے، خواہ وہ مال و دولت اور حسب و نسب کے اعتبار سے کم مرتبہ ہی کیوں نہ ہوں۔ اگر رشتہ کا طالب نماز کے قریب تک نہیں جاتاتو ایسے آدمی سے رشتہ کرنا ناجائز ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، النکاح: ۵۰۹۰۔        

[2] ترمذی، النکاح: ۱۰۸۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:351

محدث فتویٰ

تبصرے