سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(407) نکاح متعہ کی وضاحت

  • 20056
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-08
  • مشاہدات : 764

سوال

(407) نکاح متعہ کی وضاحت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل نکاح متعہ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے، کیا اسلام میں اس نکاح کی گنجائش ہے؟ اس کے متعلق وضاحت درکار ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی عورت سے ایک مقررہ مدت تک کے لیے نکاح کرنا متعہ کہلاتا ہے، اس قسم کا نکاح پہلے مباح تھا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد کرتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم خود کو خصی نہ کر لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا، پھر ہمیں اجازت دی کہ ہم کسی عورت سے کپڑوں وغیرہ کے عوض نکاح کر لیں، اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے درج ذیل آیت تلاوت کی:

﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ﴾[1]

’’اے ایمان والو! اپنے اوپر ان چیزوں کو حرام نہ کرو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں۔‘‘ [2]

 اس کے بعد اس نکاح سے قیامت تک کے لیے روک دیا گیا کیونکہ یہ عارضی رشتہ مقاصد نکاح کے منافی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے موقع پر نکاح متعہ اور پالتوں گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا۔[3]

 حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ اوطاس کے موقع پر صرف تین دن کے لیے نکاح متعہ کی اجازت دی پھر اس کے متعلق امتناعی حکم جاری کر دیا۔ [4]

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دوران خطبہ فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین مرتبہ نکاح متعہ کی اجازت دی پھر اسے حرام کر دیا، اللہ کی قسم! مجھے کسی بھی شادی شدہ جوڑے کے نکاح متعہ کا علم ہوا تو میں انہیں رجم کروں گا۔ [5] کتب حدیث میں نکاح متعہ کی رخصت کے بعد مختلف مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں اس کا منسوخ ہونا مروی ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: درست بات یہ ہے کہ نکاح متعہ دو مرتبہ حرام ہوا اور دو ہی مرتبہ اس کی رخصت دی گئی، چنانچہ یہ غزوۂ خیبر سے قبل حلال تھا پھر اسے غزوۂ خیبر کے موقع پر حرام کر دیا گیا۔ اس کے بعد فتح مکہ کے موقع پر اسے حلال کیا گیا اور (عام اوطاس بھی اسی کو کہتے ہیں) اس کے بعد نکاح متعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا گیا۔ [6]

 بہرحال نکاح متعہ کی حرمت کے متعلق تمام اہل اسلام کا اجماع ہے، روافض اسے جائز کہتے ہیں، جمہور، سلف و خلف کے اجماع کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  ۵/المائدۃ: ۸۷۔                      

[2] صحیح بخاری، التفسیر: ۴۶۱۵۔ 

[3] صحیح بخاری، النکاح: ۵۱۱۶۔

[4] صحیح بخاری، النکاح: ۵۱۱۶۔

[5] ابن ماجہ، النکاح: ۱۹۶۳۔         

[6] شرح نووی، ص: ۱۸۱،ج۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:350

محدث فتویٰ

تبصرے