سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(406) حرمت رضاعت

  • 20055
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 854

سوال

(406) حرمت رضاعت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسمی عبدالحمید نے گیارہ ماہ کی عمر میں اپنی پھوپھی کا دودھ ایک مرتبہ پیا، جبکہ اس کی والدہ کو غسل دیاجا رہا تھا کیونکہ وہ فوت ہو چکی تھی، پھر دوسری مرتبہ اس وقت دودھ پیا جب کہ اس کی والدہ کو دفن کیا جا چکا تھا، اب عبدالحمید اپنے لڑکے کی شادی اپنی پھوپھی کی ایک چھوٹی بیٹی سے کرنا چاہتا ہے، اس نکاح میں رضاعت یا کوئی دوسرا امر تو مانع نہیں؟ راہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ مسمی عبدالحمید نے صرف دو مرتبہ اپنی پھوپھی کا دودھ پیا ہے، دو مرتبہ دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک دفعہ یا دو دفعہ دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔‘‘[1] ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ ایک مرتبہ دودھ پینے اور دو مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی، جب کہ ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’پستان کو ایک مرتبہ منہ میں ڈالنے یا دومرتبہ منہ میں ڈالنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ [2]

 ان احادیث سے ثابت ہوا کہ ایک یا دو مرتبہ دودھ پینے سے رضاعت کی حرمت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پینا ضروری ہے۔ حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے حضرت سالم رضی اللہ عنہ کو پانچ مرتبہ دودھ پلایا پھر وہ ان کے بچے کی جگہ پر ہو گیا۔ [3]

 متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی مؤقف ہے کہ کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عائشہ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کے متعلق ایسا ہی مروی ہے۔ صورت مسؤلہ میں عبدالحمید نے اپنی پھوپھی کا دو مرتبہ دودھ پیا ہے، اتنی تعداد سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ لہٰذا وہ اپنے بیٹے کی شادی اپنی پھوپھی کی لڑکی سے کر سکتا ہے، اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے، اگرچہ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ دودھ تھوڑا یا زیادہ جتنا بھی پی لیا جائے، اس سے حرمت ثابت ہو جائے گی لیکن ہمارے نزدیک یہ مؤقف صحیح اور صریح احادیث کے خلاف ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] مسلم، الرضاع: ۱۴۵۰۔ 

[2] صحیح مسلم، الرضاع: ۱۴۵۱۔

[3]  صحیح مسلم، الرضاع: ۱۴۵۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:349

محدث فتویٰ

تبصرے