سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(405) دخول سے قبل تین طلاقیں اکٹھی دینا

  • 20054
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-08
  • مشاہدات : 696

سوال

(405) دخول سے قبل تین طلاقیں اکٹھی دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے نکاح کے بعد بیوی کے پاس جانے سے پہلے ہی اسے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں، کیا وہ شخص دوبارہ اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نکاح کے بعد اگر بیوی کے پاس جانے سے پہلے ہی اسے طلاق دے دی جائے تو اسی وقت نکاح ٹوٹ جاتا ہے، اس صورت میں عورت کے لیے عدت وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! جب اہل ایمان خواتین سے نکاح کرو پھر ان کے پاس جانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو تمہارے لیے ان کے ذمہ کوئی عدت نہیں، جسے پورا کرنے کی روادار ہوں۔‘‘ [1]

 نکاح ختم ہونے کے بعد دوبارہ رشتہ ازواج میں منسلک ہونے کے متعلق اس آیت کریمہ میں کوئی اشارہ نہیں، اس کے لیے دوسرے دلائل کو دیکھنا ہو گا، چنانچہ ایک دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی یا دوسری طلاق کے بعد اگر عدت ختم ہو جائے تو نکاح جدید سے دوبارہ گھر آباد کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ سورۂ بقرہ آیت نمبر۲۳۲ میں اس کی وضاحت ہے۔ صورت مسؤلہ میں جس عورت کو طلاق دی گئی ہے اس کے ذمے کوئی عدت نہیں ہے لہٰذا ہمارے رجحان کے مطابق نکاح جدید سے رجوع ممکن ہے، اس کے علاوہ شریعت میں دو مواقع ایسے ہیں کہ نکاح ختم ہو جانے کے بعد وہ عام حالات میں دوبارہ نکاح نہیں کر سکتے۔

1) جس عورت کو وقفہ وقفہ سے تین طلاقیں دی جائیں وہ ہمیشہ کے لیے خاوند پر حرام ہو جاتی ہے، صرف ایک صورت میں اکٹھے ہو سکتے ہیں کہ وہ آباد ہونے کی نیت سے کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے وہ دوسرا خاوند فوت ہو جائے یا اسے طلاق دے دے توعدت کے بعد پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے۔[2]

2) جو بیوی خاوند آپس میں لعان کریں، اس کے نتیجہ میں جو علیحدگی عمل میں آئے گی وہ بھی فیصلہ کن ہو گی، چنانچہ حدیث میں ہے کہ لعان کرنے والے میاں بیوی آپس میں دوبارہ نکاح نہیں کر سکتے۔

 صورت مسؤلہ کا ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے لہٰذا نکاح کے بعد اگر پاس جانے سے پہلے طلاق ہو جائے تو نکاح جدید سے گھر آباد کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ عورت رضا مند ہو، سر پرست کی اجازت، حق مہر اور گواہ بھی موجود ہوں۔ (واللہ اعلم)


[1] ۳۳/الاحزاب: ۴۹۔

[2]  دارقطنی،ص: ۲۷۶،ج۳۔  

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:348

محدث فتویٰ

تبصرے