سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(401) اکٹھی تین طلاقیں دے دینا

  • 20050
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-08
  • مشاہدات : 1158

سوال

(401) اکٹھی تین طلاقیں دے دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ایک دوست نے اپنی بیوی کو بحالت غصہ اکٹھی تین طلاقیں دے دیں، جب لڑکی والوں کی طرف سے عدالت میں دعویٰ دائر ہوا تو پہلے سے دی ہوئی طلاقوں کو دوبارہ پیش کر دیا گیا، اس بات کو چار سال کا عرصہ بیت گیا ہے، اب فریقین صلح کرنا چاہتے ہیں، کتاب و سنت کی روشنی میں رجوع ہو سکتا ہے؟ اگر ہو سکتا ہے تو کیسے ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک ہی مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دینا ہمارے معاشرے کا بہت نازک اور سلگتا ہوا مسئلہ ہے لیکن ہم اس سلسلہ میں بہت لا پروا واقع ہوتے ہیں، اس کی نزاکت کا اندازہ درج ذیل حدیث سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جب آپ کو اس کی اطلاع دی گئی تو غضبناک ہو کر کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’کیا میری موجودگی میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔‘‘

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت دیکھ کر ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اس شخص کو قتل نہ کر دوں؟[1]

 بہرحال کتاب و سنت کے مطابق ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ عہد حکومت میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’لوگوں نے ایک ایسے معاملہ میں جلدی کی ہے جس میں انہیں سہولت دی گئی تھی، انہوں نے اس کے بعد تینوں کو نافذکر دینے کا حکم دیا۔ [2]

 اسی طرح حضرت ابو رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی تھیں، پھر اس پر وہ نادم و پشیمان ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ تینوں طلاقیں ایک ہی ہیں۔‘‘ [3]

 ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو رکانہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’تم ام رکانہ رضی اللہ عنہا سے رجوع کر لو۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: میں نے اسے تین طلاقیں دے دی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے اس بات کا علم ہے تم اس سے رجوع کر لو۔‘[4]حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث طلاق ثلاثہ کے متعلق فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے جس کی دوسری کوئی تاویل نہیں ہو سکتی۔ [5]

 درج بالا احادیث سے معلوم ہو اکہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوتی ہے، عدالت کے روبرو پہلی طلاق کو ہی پیش کر دیا گیا لہٰذا اس کی کوئی الگ حیثیت نہیں ہے، اس طلاق پر چار سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور مطلقہ کی عدت ختم ہو چکی ہے، عدت کے اختتام پر نکاح بھی ختم ہو جاتا ہے لہٰذا تجدید نکاح سے صلح ہو سکے گی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ١﴾[6]

’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو تم ان کے شوہروں سے نکاح میں رکاوٹ نہ بنو بشرطیکہ وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہو جائیں۔‘‘

 اس آیت سے معلوم ہو اکہ رجعی طلاق کے بعد اگر عدت ختم ہو جائے تو تجدید نکاح سے صلح ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے چار باتوں کا ہونا ضروری ہے:

1) عورت تجدید نکاح پر رضا مند ہو، اس پر اس سلسلہ میں کوئی دباؤ نہ ڈالا جائے۔

2) عورت کے سرپرست کی اجازت حاصل ہو کیونکہ اس کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہو گا۔

3) از سر نو حق مہر مقرر کیا جائے۔ 4) گواہوں کی تعیین بھی ضروری ہے۔

 بہرحال ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی شمار ہو گی، دوران عدت نئے نکاح کے بغیر ہی رجوع ممکن ہے، البتہ عدت گزرنے کے بعد تجدید نکاح سے صلح ہو سکے گی۔ (واللہ اعلم)


[1] سنن النسائی، الطلاق: ۳۴۳۰۔ 

[2] صحیح مسلم، الطلاق: ۱۴۷۲۔ 

[3] مسند امام احمد، ۲۶۵،ج۱۔

[4] وداود، الطلاق: ۲۱۹۶۔    

[5] فتح الباری: ۴۵۰،ج۹۔  

[6] ۲/البقرۃ: ۲۳۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:344

محدث فتویٰ

تبصرے