سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(399) معجل اور موجل کی وضاحت

  • 20048
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 2411

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں ایک نکاح کے موقع پر اسی ہزار روپیہ حق مہر معجل اور تین لاکھ مؤجل طے ہوا، اس معجل اور مؤجل کی اصطلاح سے کیا مراد ہے؟ نکاح فارم پر بھی مؤجل اور غیر مؤجل لکھا ہوتا ہے، اس کے متعلق وضاحت مطلوب ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وہ حق مہر جو موقع پر ادا کر دیا جائے اسے معجل یا غیر مؤجل کہتے ہیں اور جسے آیندہ کسی وقت ادا کرنا ہو اسے غیر معجل یا مؤجل کہا جاتا ہے، حق مہر کے متعلق ہمارا معاشرہ بہت افراط و تفریط کا شکار ہے، حالانکہ اس کے متعلق قرآن و حدیث کے واضح احکام موجود ہیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً١ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْٓـًٔا مَّرِيْٓـًٔ﴾[1]

’’عورتوں کو ان کے حق مہر بخوشی ادا کرو، ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تمہارے لیے کچھ چھوڑ دیں تو تم اسے مزے سے کھا سکتے ہو۔‘‘

 اس آیت کریمہ میں حق مہر کی ادائیگی کے متعلق تاکید کی گئی ہے کہ ان کے حق مہر برضاء و رغبت پورے کے پورے ادا کر دئیے جائیں، ہاں اگر وہ از خود بلا جبر واکراہ اپنی خوشی سے پورا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیں تو وہ خاوند کے لیے حلال و طیب رزق ہے لیکن ان کا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کرانے میں ہیرا پھیری سے ہرگز کام نہ لیا جائے، ہمارے رجحان کے مطابق نکاح فارم پر معجل اور مؤجل کی اصطلاح حق مہر پر شب خون مارنے کا ایک چور دروازہ ہے کیونکہ شادی پر دیگر اخراجات کی مد میں لاکھوں روپیہ خرچ کر دیا جاتا ہے مگر جب حق مہر کی باری آتی ہے تو شرعی حق مہر کا سہارا لے کر سوا بتیس روپے یا اس سے کم و بیش باندھا جاتا ہے یا تھوڑی سی رقم موقع پر ادا کر دی جاتی ہے اور جھوٹی عزت کو بحال رکھنے کے لیے لاکھوں حق مہر مؤجل کر دیا جاتا ہے، پھر مختلف حیلوں بہانوں سے اسے معاف کرا لیا جاتا ہے، حالانکہ شریعت میں اس قسم کی کوئی گنجائش نہیں ہے، حق مہر کو لڑکی پر دباؤ ڈال کر معاف کرانا غلط اور گناہ کی بات ہے۔ اگر وہ از خود کسی قسم کے دباؤ کے بغیر معاف کر دے تو اور بات ہے، یہ بات دیکھنے کے لیے کہ وہ خوشی سے معاف کر رہی ہے، یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ طے شدہ حق مہر اس کے حوالے کر دیا جائے پھر وہ اگر اپنی خوشی سے واپس کر دے تو اسے استعمال میں لایا جا سکتا ہے، بہرحال حق مہر بیوی کا خاوند کے ذمے ایک فرض ہے جسے بہرصورت ادا کرنا چاہیے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِيْضَةً١﴾[2]

’’جن عورتوں سے تم (شرعی نکاح کے بعد) فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا حق مہر ادا کرو۔‘‘

 شادی کے موقع پر جہاں دیگر اخراجات پورے کیے جاتے ہیں وہاں حیثیت کے مطابق حق مہر باندھ کر اسے فوراً ادا کر دیا جائے، معجل اور غیر مؤجل کی اصطلاح سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہ کی جائے اور نہ ہی بیوی پر دباؤ ڈال کر اسے معاف کرایا جائے۔ (واللہ اعلم)


[1] ۴/النساء: ۴۔  

[2] ۴/النساء: ۲۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:343

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ