سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(391) عدت خلع کی مقدار

  • 20040
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3583

سوال

(391) عدت خلع کی مقدار

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میں نے اپنے خاوند سے خلع لے کر علیحدگی اختیار کی ہے، اب میں نے عدت کتنی گزارنی ہے اور عدت کے دن میں نے کہاں پورے کرنے ہیں؟۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 خلع، بیوی کے مطالبے کے بعد عمل میں آتا ہے یعنی بیوی کے مطالبے کے بعد خاوند سے علیحدگی پر راضی ہونے کو خلع کہتے ہیں، خلع کی بنیاد پر علیحدگی اختیار کرنے والی ہر عورت پر عدت واجب ہے لیکن اگر رخصتی سے قبل ہی خلع حاصل کر لیا ہے تو اس صورت میں کوئی عدت نہیں ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:

﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا١ۚ﴾[1]

’’اے ایمان والو! جب تم اہل ایمان خواتین سے نکاح کرو پھر انہیں چھونے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا حق عدت نہیں جسے تم شمار کرو۔‘‘

 اور خلع کی عدت کے متعلق راجح مؤقف یہی ہے کہ خلع یافتہ عورت صرف ایک حیض آنے تک عدت گزارے گی جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع لے لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ ایک حیض عدت گزارے۔ [2]

 کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ خلع والی عورت بھی مطلقہ عورت کی طرح تین حیض عدت گزارے، امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تردید کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ خلع، طلاق نہیں کیونکہ ہم بستری کے بعد ہونے والی طلاق پر اللہ تعالیٰ نے تین احکام مرتب کیے ہیں جو خلع میں نہیں پائے جاتے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

٭ طلاقوں کی تعداد تین ہے، تیسری طلاق کے بعد عام حالات میں خاوند رجوع نہیں کر سکتا جب کہ خلع میں تجدید نکاح سے رجوع ممکن ہے۔

٭ طلاق کی عدت تین حیض ہے جب کہ خلع کی عدت تین حیض نہیں بلکہ ایک حیض ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔

٭ خلع عورت کے مطالبہ پر ہوتا ہے جبکہ طلاق خاوند اپنی طرف سے دیتا ہے۔

 اس بنا پر خلع یافتہ عورت کی عدت ایک حیض ہی ہے۔ چونکہ خلع کا فیصلہ ہوتے ہی نکاح ختم ہو جاتا ہے، اس لیے وہ عورت خاوند کے لیے اجنبی بن جاتی ہے لہٰذا اسے اپنے خاوند کے گھر کے علاوہ اپنے والدین کے ہاں عدت کے ایام گزارنا ہوں گے، اگر دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو ایسا کرنے سے دوبارہ گھر آباد کیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] ۳۳/الاحزاب: ۴۹۔  

[2] ترمذی، الطلاق: ۱۱۸۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:338

محدث فتویٰ

تبصرے