سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(383) دوران حمل دی ہوئی طلاق کا مسئلہ

  • 20032
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1369

سوال

(383) دوران حمل دی ہوئی طلاق کا مسئلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دوران حمل دی ہوئی طلاق شرعاً نافذ ہو جاتی ہے یا نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دوران حمل اپنی بیوی کو طلاق دی جا سکتی ہے اور شرعاً نافذ ہو جاتی ہے، اس کے متعلق قرآن و حدیث میں کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو جب اپنی بیوی کو طلاق دینے کا طریقہ بتایا تو فرمایا: ’’تم اسے حالتِ حمل میں طلاق دو۔‘‘ [1]

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران حمل دی گئی طلاق جائز اور مباح ہے، اس کے علاوہ قرآن کریم میں حاملہ عورت کی عدت بایں الفاظ بیان ہوئی ہے:

﴿وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ١ ﴾[2]

’’حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جنم دے۔‘‘

 اگر دوران حمل طلاق ناجائز ہوتی تو اس کی عدت بتانے کی ضرورت نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ خود ہی وضاحت کر دیتے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے، الغرض دوران حمل طلاق دینا صحیح اور مباح اور ایسی طلاق شرعاً واقع ہو جاتی ہے اور ا س قسم کی طلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے عین مطابق ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] بخاری، التفسیر: ۴۹۰۸۔  

[2] ۶۵/الطلاق: ۴۔   

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:333

محدث فتویٰ

تبصرے