سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(376) دوسری شادی کے لیے بیوی کی اجازت

  • 20025
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1016

سوال

(376) دوسری شادی کے لیے بیوی کی اجازت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری شادی آج سے تین سال قبل ہوئی، الحمد اللہ میرے تین بچے ہیں، میرا دوسری شادی کا پروگرام ہے، میں نے اس بات کا ذکر جب اپنی بیوی سے کیا تو اس نے کہا مجھے طلاق دے دو، قرآن و حدیث کے مطابق کیا اسے حق ہے کہ وہ بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرے نیز کیا دوسری شادی کے لیے بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے؟ اس سلسلہ میں میری راہنمائی کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی شخص مالی اوربدنی طور پر دوسری شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی ہمت بھی رکھتا ہے تو شرعاً اسے دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً ﴾[1]

’’اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لو، دو، دو تین تین اور چار چار سے، لیکن اگر تمہیں عدل نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو تو ایک ہی کافی ہے۔‘‘

 لیکن ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عورت میں بہت غیرت ہوتی ہے خاص طور پر سوکن کے سلسلہ میں اس کا کچھ زیادہ ہی مظاہرہ ہوتا ہے وہ اس بات کو قطعاً برداشت نہیں کرتی کہ خاوند کے ساتھ کوئی اور عورت بھی اس کی شریک ہو جائے، یہ غیرت کوئی ملامت والی چیز نہیں ہے، اچھی عورت میں یہ غیرت پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ غیرت اس وقت قابل مذمت ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیز پر اعتراض کا باعث ہو، خاوند اگر دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو اگرچہ پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری نہیں ہے، تاہم حسن معاشرت کا تقاضا ہے کہ اپنی بیوی کو اعتماد میں لیا جائے، ایسا نہ ہو کہ شادی کرنے کے بعد گھر کا سکون تباہ ہو جائے، دوسری شادی بطور فیشن کرنا ہمارے نزدیک مستحسن نہیں ہے۔ البتہ بلاوجہ عورت کا طلاق لینا اور اس کا مطالبہ کرنا بھی شرعاً ناجائز ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی عورت کسی شرعی ضرورت کے بغیر اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہو گی۔‘‘ [2]

 اسے چاہیے کہ حالات کا بغور جائزہ لے اگر وہ دوسری بیوی کی موجودگی میں اچھی طرح زندگی نہیں گزار سکتی تو خلع لے کر فارغ ہو جائے اور اگر وہ گزارا کر سکتی ہے، لیکن اسے تکلیف یا تنگی محسوس ہوتی ہے تو اللہ کی رضا کے لیے صبر کرے، اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا ثواب ملے گا، ہم اس حوالے سے خاوند کو نصیحت کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے اولاد کی نعمت سے نوازا ہے اور بیوی کے اخلاق و کردار میں کوئی کمزوری نہیں ہے تو دوسری بیوی سے شادی کرنے کا تجربہ نہ کرے کیونکہ یہ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے جسے محض دل لگی اور تفریح طبع کے لیے عمل میں لایا جائے اور اگر اسے واقعی ضرورت ہے تو بہتر ہے کہ اپنی پہلی بیوی کو اعتماد میں لے تاکہ آیندہ اسے کسی قسم کی پریشانی نہ ہو، ہمارے معاشرہ میں یہ معاملہ آسانی سے ہضم نہیں ہوتا، اس لیے انتہائی غور و فکر اور سوچ و بچار کے بعد یہ اقدام کرنا چاہیے۔


[1] ۴/النساء: ۳۔    

[2]  ابوداود، الطلاق: ۲۲۲۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:328

محدث فتویٰ

تبصرے