سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(372) اعضاء رئیسہ (دل،جگر،دماغ،گردوں کی وصیت) کرنا

  • 20021
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2508

سوال

(372) اعضاء رئیسہ (دل،جگر،دماغ،گردوں کی وصیت) کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل میڈیا پر لوگوں کو اس بات کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ فوت ہونے سے قبل اپنے اعضاء رئیسہ دل، دماغ، جگر اور گردوں کے متعلق وصیت کر دیں کہ یہ فلاح انسانیت کے لیے وقف ہیں او رمیرے فوت ہونے کے بعد انہیں نکالا جا سکتا ہے تاکہ لوگوں کے کام آئیں، کیا ایسا کرنا شریعت کی رو سے جائز ہے؟ وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کے انسان پر بے شمار احسانات ہیں، ان میں سے ایک بڑا احسان یہ ہے کہ اسے جسم اور اعضا عطا فرمائے ہیں جنہیں وہ کام میں لاتا ہے، اعضاء رئیسہ دل، دماغ جگر اور گردے وغیرہ تو اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں او ریہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جسم اور اعضاء کا انسان کو مالک نہیں بنایا کہ انہیں جیسے چاہے استعمال کرے یا ان میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرے بلکہ بطور امانت یہ جسم اور اعضاء اس کے حوالے کیے ہیں، قیامت کے دن ان کے استعمال کے متعلق انسان سے باز پرس ہو گی۔ قرآن کریم نے کان، آنکھ اور دل کے متعلق بطور خاص تنبیہہ کی ہے کہ کان، آنکھ اور دل سب کے متعلق اللہ کے ہاں باز پرس ہو گی۔[1]

 ہمارے رجحان کے مطابق جو لوگ دل، دماغ اور جگر، گردے کے متعلق وصیت کر جاتے ہیں کہ مرنے کے بعد انہیں نکال کر کسی بھی ضرورت مند کو لگا دئیے جائیں، یہ وصیت بے جا تصرف ہے، جس کی انسان کو اجازت ہی نہیں، حدیث میں ایک واقعہ سے اس مؤقف پر روشنی پڑتی ہے: حضرت طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تو ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی، لیکن مدینہ طیبہ کی آب و ہوا اسے موافق نہ آئی، چنانچہ وہ شخص بیمار ہوا اور تکلیف کے ہاتھوں بے بس ہو کر اس نے برچھے سے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے، جب خون بہنا شروع ہوا تو دونوں ہاتھوں سے اس قدر خون نکلا کہ وہ مر گیا۔ طفیل دوسی رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا تو اس کی شکل اچھی تھی مگر اپنے دونوں ہاتھوں کو چھپائے ہوئے تھا، انہوں نے پوچھا کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا کیا؟ اس نے کہا: ہجرت کی وجہ سے مجھے معاف کر دیا ہے پھر پوچھا تو نے ہاتھوں کو کیوں چھپایا ہوا ہے؟ تو اس نے کہا مجھ سے کہا گیا ہے؟ ہم تیرے ہاتھوں کو درست نہیں کریں گے کیونکہ تو خود انہیں خراب کر کے آیا ہے، جب حضرت طفیل رضی اللہ عنہ نے یہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! تو اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی بخش دے۔‘‘ [2] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو انسان وصیت کر کے اپنے اعضاء رئیسہ کو خراب کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کی اصلاح نہیں فرمائیں گے۔ لہٰذا اس قسم کی وصیت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)


[1]  ۱۷/الاسراء:۳۶۔

[2] مسلم، الایمان: ۳۱۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:319

محدث فتویٰ

تبصرے