سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(368) رضاعی بیٹے کا حصہ

  • 20017
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1042

سوال

(368) رضاعی بیٹے کا حصہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رضاعی بیٹے کو وراثت سے حصہ دینے کے متعلق شریعت اسلامیہ کا کیا حکم ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علم فرائض کی اصطلاح میں کسی کے ترکہ سے حصہ پانے کے دو اسباب بیان کیے جاتے ہیں، ایک نکاح اور دوسرا نسب۔ رضاعت یعنی اجنبی عورت کا دودھ پینا، ان اسباب سے نہیں جو کسی کے ترکہ سے حصہ پانے کا باعث ہو، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’والدین اور قریبی رشتہ دار جو ترکہ چھوڑیں، اس میں مردوں اور عورتوں دونوں کا حصہ ہے۔‘‘ [1]

 ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

﴿وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ١ ﴾[2]

’’اور بعض ذوی الارحام دوسروں کے مقابلہ میں کتاب اللہ کی رو سے (وراثت لینے کے) زیادہ مستحق ہیں۔‘‘

 ان آیات کی روشنی میں رضاعی بیٹے کا ترکہ سے کوئی حصہ نہیں ہے۔ اگر اس کے علاوہ کوئی اور خونی رشتہ ہے تو کسی اور صورت میں اسے وارث بنایا جا سکتا ہے مثلاً بھتیجے کو کسی عورت نے دودھ پلایا ہے تو اگر کوئی قریبی رشتہ نہ ہو تو اسے بھتیجا ہونے کی حیثیت سے وارث بنایا جا سکتا ہے، اگر مرنے والے نے اپنے رضاعی بیٹے کے حق میں وصیت کی ہو تو بھی ترکہ سے وصیت کے طور پر حصہ دیا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ وصیت کل ترکہ کا 3/1 (ثلث) یا اس سے کم ہو، جیسا کہ احادیث میں اس کی وضاحت ہے، ان صورتوں کے علاوہ رضاعی بیٹے کو وارث بنانا شرعاً ناجائز ہے اور دوسرے قریبی رشتہ داروں کی حق تلفی ہے، جس کے متعلق قیامت کے دن اللہ کے ہاں باز پرس ہو گی، لہٰذا بے اولاد حضرات کو اس پہلو پر غور کر لینا چاہیے، ویسے بھی اسلام نے لے پالک بنانے کی حوصلہ افزائی نہیں کی کیونکہ اس میں بہت سی قباحتیں ہیں، بس ایسا کرنے سے دل کو ایک موہوم سی تسلی ہو جاتی ہے، ہمارے رجحان کے مطابق اس کے فائدے کے مقابلہ میں نقصانات زیادہ ہیں۔ (واللہ اعلم)


[1] ۴/النسا:۷۔

[2] ۸/الانفال:۷۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:317

محدث فتویٰ

تبصرے