سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(364) مقروض کے ترکہ کی تقسیم

  • 20013
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 604

سوال

(364) مقروض کے ترکہ کی تقسیم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی فوت ہوا، پسماندگان میں سے بیوی، باپ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی زندہ ہے، اس کے ترکہ میں ایک لاکھ روپیہ ہے جبکہ ۲۸ ہزار روپیہ اس کے ذمے قرض بھی ہے، شرعی طور پر اس کے ورثاء کو اس سے کیا کچھ ملے گا؟ براہِ کرم جلدی جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں بیوی کا آٹھواں حصہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ ﴾[1]

’’اگر مرنے والے کی اولاد ہو تو بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے۔‘‘

 باپ کا چھٹا حصہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ لِاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ﴾[2]

’’اگر میت کی اولاد ہے اور والدین بھی ہیں تو والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔‘‘

 مقررہ حصہ لینے والے ورثاء سے جو باقی بچے وہ اولاد کا ہے۔ حدیث میں ہے کہ مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کے طے شدہ حصے دئیے جائیں، ان سے جو باقی بچے وہ مذکر قریبی رشتہ دار کا ہے۔ [3]

 پھر اولاد میں اس شرح سے تقسیم کیا جائے کہ لڑکے کو لڑکی کے مقابلہ میں دو گنا ملے، واضح رہے کہ تقسیم سے پہلے قرض کی ادائیگی ضروری ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصِيْنَ بِهَاۤ اَوْ دَيْنٍ١ ﴾[4]

’’یہ تقسیم میت کی وصیت اور اس کا قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی۔‘‘

 سہولیت کے پیش نظر کل ترکہ کو بہتر(۷۲) حصوں میں تقسیم کر دیا جائے، ان میں آٹھواں حصہ یعنی نو حصے بیوہ کو اور چھٹا حصہ یعنی ۱۲ حصے والد کو اور باقی ۱:۲ کی نسبت سے لڑکے اور لڑکی میں تقسیم کر دیا جائے، لڑکی۱۷ حصے اور لڑکے کو چونتیس حصے دئیے جائیں۔ ایک لاکھ ترکہ سے اٹھائیس ہزار قرض منہا کیا تو باقی بہتر(۷۲) ہزار روپیہ ہے، اس سے نو ہزار بیوہ کو، بارہ ہزار والد کو، چونتیس ہزار روپیہ لڑکے کو اور سترہ ہزار روپے لڑکی کو دیا جائے۔ (وااللہ اعلم بالصواب)


[1] ۴/النساء:۱۲۔ 

[2] ۴/النساء:۱۱۔  

[3] صحیح بخاری، الفرائض: ۶۷۴۶۔

 [4] ۴/النساء:۱۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:314

محدث فتویٰ

تبصرے