سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(363) غیر شرعی وصیت کرنا

  • 20012
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1385

سوال

(363) غیر شرعی وصیت کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے والد نے وصیت کی ہے کہ میرے مرنے کے بعد میری دوکان بڑے بیٹے کو دے دی جائے اور باقی جائیداد تقسیم کرتے وقت بھی اسے حصہ دیا جائے، جب کہ اس کی اولاد اور بھی ہے۔ اس وصیت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ درکار ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مرنے والے کی جائیداد تقسیم کرنے کا اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:

﴿يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ١ۚ﴾ [1]

’’اللہ تمہیں، تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔‘‘

 اس آیت کے پیش نظر اولاد، اپنے باپ کی شرعی وارث ہے اور جو شرعی وارث ہوتا ہے اس کے لیے وصیت ناجائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے، اس بنا پر وارث کے لیے وصیت نہیں ہے۔‘‘[2] اس حدیث کی روشنی میں بڑے بیٹے کے لیے باپ کی وصیت ناجائز اور باطل ہے، اس کا نافذ کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَيْهِ١ ﴾[3]

’’جو شخص وصیت کرنے والے کی طرفداری یا حق تلفی کا اندیشہ محسوس کرے اور وہ اصلاح کرا دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘

 اس آیت کے پیش نظر اس غلط وصیت کی اصلاح ضروری ہے کیونکہ اس میں دوسرے بچوں کی حق تلفی کی گئی ہے۔ اگر باقی اولاد خوشی سے اس وصیت کو مان لیں اور اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں تو اس وصیت پر عمل کیا جا سکتا ہے لیکن اگر شرعی ورثاء اس وصیت کو نہ مانیں اور دل میں گھٹن محسوس کریں تو وصیت پر عمل کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول پر عمل کرنا ہو گا اور وہ یہ کہ وفات کے بعد اولاد میں جائیداد اس طرح تقسیم ہو کہ ایک بیٹے کو بیٹی کے مقابلہ میں دو گنا حصہ دیا جائے، آباء واجداد کو چاہیے کہ وہ اپنے ایک بیٹے کی طرفداری کرتے ہوئے اپنی عاقبت کو خراب نہ کریں۔ (واللہ اعلم)


[1] ۴/النساء:۱۱۔ 

[2]  ابوداود، الوصایا: ۲۸۷۰۔  

[3] ۲/البقرۃ:۱۸۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:314

محدث فتویٰ

تبصرے