سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(359) بلاعذر شرعی وراثت سے محروم کرنا

  • 20008
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 632

سوال

(359) بلاعذر شرعی وراثت سے محروم کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی اپنے حقیقی بیٹے کو اپنی جائیداد سے محروم کرنے کے لیے اپنے مرحوم بیٹے اور اس کے بیٹے، بیٹیوں کو معمولی رقم بطور حیلہ لے کر اپنی جائیداد میں شریک کر لیتا ہے، کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے کسی مرد یا عورت کو یہ اختیار نہیں دیا کہ اپنے ورثاء میں سے کسی کو مختلف حیلوں بہانوں کے ذریعے اپنی جائیداد سے محروم کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ١ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا﴾[1]

’’مردوں کے لیے اس مال میں سے حصہ ہے جو والدین اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور اوروں کے لیے بھی اس مال میں سے حصہ سے جو اس کے ماں باپ اور رشتہ داروں نےچھوڑا ہو، خواہ وہ مال تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ اللہ کی طرف سے طے شدہ ہے۔‘‘

 اس آیت کے پیش نظر کسی وارث کو بلا عذر شرعی وراثت سے محروم نہیں کیا جا سکتا، احادیث میں بھی اس کی وضاحت ہے کہ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی جائیداد سے حقیقی وارث کو محروم کرے۔ اگر ایسا کرتا ہے تو اس کے لیے بہت سخت وعید ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو کسی کی وراثت کو ختم کرتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے مقرر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی وراثت کو ختم کر دیں گے۔‘‘ [2]

 اس طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنے وارث کو حصہ دینے سے راہ فرار اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کا حصہ ختم کر دیں گے۔ [3] اگرچہ مؤخر الذکر روایت ضعیف ہے تاہم اسے تائید کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے، الغرض باپ نے حیلے کے ذریعے ایک غیر وارث کو اپنی جائیداد میں شریک کیا ہے اور ایک وارث کو اس کی جائیداد سے محروم کیا ہے، اس کا یہ اقدام انجام کے اعتبار سے انتہائی خطرناک ہے۔


[1] ۴/النساء:۷۔

[2] شعب الایمان للبیہقی، ص: ۱۱۵،ج۱۴۔

[3]  ابن ماجہ، کتاب الوصایا:۲۷۰۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:311

محدث فتویٰ

تبصرے