سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(353) بیٹے اور بہو میں مال کی تقسیم

  • 20002
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 576

سوال

(353) بیٹے اور بہو میں مال کی تقسیم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مرحوم محمد علی نے وفات کے بعد ایک مکان چھوڑا، جو اس کی دو بیٹوں کے پاس رہا، اس دوران ایک بیٹا فوت ہو گیا، جس کی کوئی حقیقی اولاد نہ تھی، صرف بیوی اور ایک لے پالک بیٹی زندہ ہے، مرحوم محمد علی کا دوسرا بیٹا صاحب اولاد زندہ موجود ہے، واضح رہے کہ مرحوم محمد علی کی ایک شادی شدہ صاحب اولاد بیٹی اس کی زندگی میں فوت ہو گئی تھی، اب سوال یہ ہے کہ زندہ بیٹے اور مرحوم بیٹے کی بیوہ کو ترکہ (مکان) سے کتنا حصہ ملے گا، نیز مرحوم بیٹے اور مرحومہ کی اولاد کو اس ترکہ (مکان) سے کچھ ملے گا یا نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں فتویٰ دیا جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسؤلہ میں مندرجہ ذیل علم الفرائض کے قواعد کو پیش نظر رکھا جائے گا۔

1) کسی کے ترکہ کا وہ رشتہ دار وارث ہوتا ہے جو صاحب ترکہ کی وفات کے وقت زندہ ہو، اس کی وفات سے پہلے فوت شدگان وارث نہیں ہوں گے، اس قاعدے کے پیش نظر مرحوم محمد علی کی شادی شدہ بیٹی جو اس سے پہلے وفات پا چکی ہے ترکہ سے حصہ نہیں پائے گی۔

2) قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں دور والے رشتہ دار محروم ہوتے ہیں، اس بنا پر بیٹیوں کی موجودگی میں مرحومہ بیٹی کی اولاد محروم ہو گی، انہیں ترکہ سے کچھ نہیں ملے گا۔

3) وراثت لینے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے کہ وہاں خونی رشتہ قائم ہو، اس بنا پر لے پالک، جائیداد سے محروم ہوتا ہے۔ اس وضاحت کے بعد مرحوم محمد علی کے ترکہ (مکان) کے حقدار اس کے دو بیٹے تھے۔ ان میں وہ مکان آدھا ، آدھا تقسیم ہو گا، جب مرحوم محمد علی کا بیٹا فوت ہوا تو وہ اپنے باپ کے آدھے مکان کا حقدار بن چکا تھا، اس کی وفات کے وقت، اس کی بیوہ، اس کا بھائی اور لے پالک بیٹی زندہ تھے، لے پالک تو محروم ہے اور مکان سے اس کا حصہ…2/1 اس کی بیوہ اور بھائی میں تقسیم ہو گا، بیوہ کو 2/1 کا 4/1 ملے گا۔ یعنی 2/1 کا 4/1=8/1 کی حقدار ہو گی اور 1/2 سے بیوہ کا حصہ نکال کر (2/8-1/1) باقی 8/3 بھائی کا حق ہے، زندہ بھائی کو2/1 باپ کے ترکہ سے اور 8/3 بھائی کے ترکہ سے ملا، اس طرح وہ 8+1/2/3=8/7 کا حقدار ہے اور 8/1 مرحوم کی بیوہ کو ملے گا، سہولت کے پیش نظر مکان کو آٹھ حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ بیوہ کو اور باقی سات حصے زندہ بھائی کے ہیں۔ مرحوم بہن کی اولاد اور مرحوم بھائی کی لے پالک بیٹی محروم ہے، انہیں مکان سے کچھ نہیں ملے گا۔ اگر مرحوم محمد علی یا اس کے مرحوم بیٹے نے کوئی وصیت کی ہو تو اسے تقسیم سے پہلے نافذ کیا جائے گا۔ (واللہ اعلم)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:307

محدث فتویٰ

تبصرے