سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(347) ورثاء بھائی اور بہن ہوں تو حصص

  • 19996
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 627

سوال

(347) ورثاء بھائی اور بہن ہوں تو حصص

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے بڑے بھائی لا ولد فوت ہوئے ہیں، اس کے شرعی ورثاء بیوہ، چار بھائی اور ایک بہن ہے، انہوں نے رہائش کے لیے ایک مکان بنایا تھا جو اپنی بیوی کے نام کر دیا تھا، ملازمت کے دوران انہوں نے ایک پلاٹ بھی خریدا۔ انہوں نے مکان اور پلاٹ فروخت کر کے ایک تعمیر شدہ مکان ۳۳ لاکھ میں خریدا، اس نئے مکان میں چار سال رہائش رکھنے کے بعد وہ فوت ہو گئے ہیں۔ اب ان کی بیوی کا مطالبہ ہے کہ نئے مکان کا نصف مجھے دیا جائے کیونکہ اس کی خریداری میں میرے نام مکان کی قیمت شامل ہے جو اس کی نصف ما لیت کے برابر ہے، اس کے بعد باقی نصف سے میرا شرعی حصہ دیا جائے، کیا بیوہ کا موقف درست ہے نیز شرعی طور پر ورثاء کو کتنا ، کتنا حصہ آتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرحوم نے اپنا پہلا رہائشی مکان تعمیر کر کے اپنی بیوی کے نام کر دیا اس کی دو صورتیں ہیں، پہلی صورت یہ ہے کہ انہوں نے ٹیکس وغیرہ سے بچنے کے لیے اس مکان کو اپنی بیوی کے نام کر دیا ہو اور ا س کی وضاحت بیوی کے سامنے کر دی ہو تو اس صورت میں تو وہ مکان مرحوم کی ملکیت ہو گا اور صرف قانونی طور پر بیوی کے نام تصور کیا جائے گا، دوسری صورت یہ ہے کہ انہوں نے حقیقی طور پر بیوی کو ہبہ کر دیا ہو اور اس کے نام حکومت کے کاغذات میں رجسٹری کرا دیا ہو۔ اس صورت میں بیوی اس مکان کی مالکہ ہو گی، دوسرا کوئی اس میں شریک نہیں ہے لیکن اس امر کا بدستور احتمال ہے کہ جب بیوی کے نام مکان کو فروخت کیا گیا تو بیوی نے وہ رقم خاوند کو ہبہ کے طور پر دے دی ہو جس طرح مرحوم نے مکان اسے ہبہ کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ دوسرا خرید کردہ مکان خاوند کے نام ہے، رجسٹری وغیرہ میں بیوی کا کوئی نام نہیں ہے، اگر بیوی کو اس میں شریک کرنا چاہتا تو آدھا مکان بیوی کے نام کر سکتا تھا لیکن اس نے اپنے نام پر ہی نیا مکان خریدا ہے، اگر بیوی نے اپنے مکان کی قیمت بطور قرض خاوند کو دی اور پھر اس نے پلاٹ کی قیمت ملا کر نیا مکان خریدا تو تقسیم سے پہلے بیوہ کا سولہ لاکھ قرض اتارنا ہو گا اور وہ مکان کی موجودہ قیمت سے الگ کیا جائے، اس صورت میں وہ سولہ لاکھ کی واپسی کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے، مکان میں صرف حصہ لینے کا دعویٰ درست نہیں کیونکہ وہ مرحوم نے اپنے نام پر خریدا ہے اور تاحال اسی کے نام پر ہے، اس وضاحت کے بعد پہلی صورت میں نیا خرید کردہ مکان مرحوم کا ترکہ شمار ہو گا اور اسے تمام ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا اور دوسری صورت میں بھی مکان تو شرعی ورثاء میں تقسیم ہو گا البتہ اس کے ذمہ ۱۶ لاکھ قرض اس کی متروکہ جائیداد سے ادا کرنا ہو گا، دونوں صورتوں میں تقسیم کا طریقہ درج ذیل ہے:

چونکہ مرحوم لا ولد ہے اس لیے کل جائیداد سے بیوہ کو چوتھا حصہ دیا جائے اور باقی ماندہ ترکہ کو بہن بھائی اس طرح تقسیم کریں کہ ایک بھائی کو بہن سے دو گنا ملے، سہولت کے پیش نظر جائیداد کے چھتیس حصے کر لیے جائیں۔ ان میں چوتھا یعنی نو حصے بیوہ کے لیے اور باقی ستائیس حصے اس طرح تقسیم کیے جائیں کہ چھ، چھ حصے ایک بھائی کو اور تین حصے بہن کو مل جائیں۔ بہرحال مرحوم کے بہن بھائیوں کو چاہیے کہ وہ دنیا کے مال و متاع کی خاطرہ بیوہ پر ناجائز دباؤ نہ ڈالیں بلکہ اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں اور بیوہ کو بھی چاہیے کہ وہ بگاڑ کی کوئی صورت اختیار نہ کرے بلکہ رواداری کو پیش نظر رکھتے ہوئے باہمی اتفاق کی روش اختیار کرے۔ (واللہ اعلم)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:302

محدث فتویٰ

تبصرے