سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(344) لڑکیوں کو وراثت سے محروم رکھنا

  • 19993
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 592

سوال

(344) لڑکیوں کو وراثت سے محروم رکھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عموماً لڑکیوں کو وراثت سے محروم کیا جاتا ہے، اس کے لیے بہانہ سازی کی جاتی ہے کہ انہیں جہیز کی صورت میں جائیداد کا حصہ دے دیا گیا ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ نیز کیا لڑکی کے معاف کر دینے سے وراثتی حصہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بیس کنال زمین چار بھائیوں اور چار بہنوں میں کس طرح تقسیم ہو گی؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جاہلیت قدیم میں وراثت کا حقدار صرف ان لڑکوں کو خیال کیا جاتا تھا جو دشمنوں سے لڑنے اور ان سے انتقام لینے کی ہمت رکھتے تھے، اس بنا پر عورتوں اور چھوٹی اولاد کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا عورتوں کو وراثت میں حصہ دار ٹھہرانے کے بجائے انہیں ورثہ شمار کیا جاتا تھا، اسے ترکہ کا مال خیال کیا جاتا، اس کا وارث سوتیلا بیٹا یا میت کا بھائی ہوتا، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے:’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عربوں کے دستور کے مطابق جب کوئی شخص مر جاتا تو اس کی بیوی پر میت کے وارثوں کا زور چلتا تھا وہ چاہتے تو اس سے نکاح کر لیتے، چاہتے تو کسی دوسرے سے نکاح کر دیتے اور اگر چاہتے تو اسے بلا نکاح ہی رہنے دیتے، الغرض اس پر خاوند کے وارثوں کا اختیار ہوتا، عورت کے ورثاء کا کچھ بھی اختیار نہ ہوتا پھر درج ذیل آیت نازل ہوئی:

﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا١ ﴾[1]

’’اے ایمان والو! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔‘‘

 اس سے عورتوں کو پوری آزادی مل گئی۔[2]

 وراثت سے محروم کرنے کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا اور درج ذیل حکم نازل فرمایا:

﴿لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ١ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا﴾[3]

’’مردوں کے لیے اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اسی طرح عورتوں کے لیے اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، خواہ یہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ، ہر ایک کا طے شدہ حصہ ہے۔‘‘

 اللہ نے اس حکم کے ذریعے عورت کو ذلت کے مقام سے نکال کر وراثت میں حصہ دار بنا دیا، لیکن افسوس کہ موجودہ جاہلیت جدیدہ میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے، اسے جہیز کی آڑ میں وراثت سے محروم کیا جاتا ہے یا اس پر دباؤ ڈال کر اس کا حصہ معاف کرا لیا جاتا ہے، ہمارے نزدیک اسے وراثت سے محروم کرنا یا حصہ دینے سے قبل معاف کرا لینا سنگین جرم ہے، جس کے متعلق قیامت کے دن باز پرس ہو گی، بیٹی یا بہن کو اس کا پورا پورا حصہ دے دیا جائے پھر اگروہ معاف کر دے تو اسے اختیار ہے، جہیز ناجائز نہیں لیکن اس کے متعلق کچھ تحفظات ہیں جنہیں ہم کسی اور موقع پر بیان کریں گے۔ بہرحال عورتیں، وراثت میں پوری پوری حصے دار ہیں خواہ ان کوجہیز دے دیا گیا ہو، اس کی آڑ میں اسے وراثت سے محروم کرنا روشن خیالی کا ہی شاخسانہ ہے۔ سوال میں ۲۰ کنال کی تقسیم کا بھی دریافت کیا گیا ہے، اس کے متعلق عرض ہے کہ منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کے بارہ حصے کر لیے جائیں پھر ان سے دو ، دو حصے فی لڑکا اور ایک ، ایک حصہ لڑکی کو دے دیا جائے۔ اس کے بعد پٹواری کا کام ہے کہ وہ زمین کو مذکورہ حصص کے مطابق تقسیم کرے، ویسے ایک لڑکے کا حصہ ۳ کنال ۶ مرلے اور ۶ سرساہی ہے۔ جب کہ لڑکی کا حصہ ایک کنال تیرہ مرلے اور تین سرساہی ہے۔(واللہ اعلم)


[1] ۴/النساء:۱۹۔   

[2]  صحیح بخاری، التفسیر: ۴۵۷۹۔

[3] ۴/النساء:۷۔  

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:299

محدث فتویٰ

تبصرے