سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(340) رخصتی سے قبل منکوحہ کا حصہ

  • 19989
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 877

سوال

(340) رخصتی سے قبل منکوحہ کا حصہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ایک آدمی نے کسی عورت سے نکاح کیا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی اب وہ وفات پا چکا ہے کیا منکوحہ اس کے ترکہ کی حقدار ہے؟ اگر ہے تو کس قدر؟ نیز اس کے پس ماندگان میں سے دو حقیقی بہنیں اور ایک چچا زاد بھائی ہے، ان کے علاوہ اس کی پھوپھی بھی زندہ ہے۔ ایسے حالات میں اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہو گی؟ کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب عورت سے نکاح ہو جائے تو وہ اس کی بیوی بن جاتی ہے خواہ رخصتی عمل میں نہ آئے، رخصتی کا نہ ہونا مہر وغیرہ پر اثر انداز ہوتا ہے، البتہ وراثت میں وہ پوری پوری حقدار ہے۔ اگرچہ وہ عقد ثانی بھی کرلے، اگر مرنے والے کی اولاد نہیں ہے تو منکوحہ کو چوتھا حصہ ملے گا، سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لا ولد ہی فوت ہوا ہے۔ مرحوم کے منقولہ اور غیر منقولہ ترکہ کی تقسیم حسب ذیل تفصیل کے مطابق ہو گی۔

 ٭ منکوحہ غیر مدخولہ کو چوتھا حصہ دیا جائے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ١ۚ ﴾[1]

’’اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو بیویوں کے لیے چوتھا حصہ ہے۔‘‘

٭ دو حقیقی بہنوں کو دو تہائی دیا جائے گا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَ١ ﴾[2]

’’اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں ترکہ سے دو تہائی ملے گا۔‘‘

٭ مقررہ حصے لینے والوں کے حصص نکال کر جو باقی بچے وہ چچا زاد بھائی کا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’مقررہ حصے لینے والوں کو ان کا حق دے دو اور جو باقی بچے وہ میت کے قریبی مذکر رشتہ دار کا ہے۔ [3]

 سہولت کے پیش نظر مرحوم کی جائیداد کو بارہ حصوں میں تقسیم کر لیا جائے، ان میں ۴/۱ یعنی تین حصے منکوحہ غیر مدخولہ کے ہیں اور ۳/۲ یعنی آٹھ حصے دونوں حقیقی بہنوں کو دئیے جائیں وہ انہیں برابر برابر تقسیم کر لیں گی، پھر ایک حصہ جو باقی بچا ہے وہ میت کے چچا زاد بھائی کا حق ہے، میت کی پھوپھی وارثت سے محروم ہے، اسے کچھ نہیں ملے گا۔ (واللہ اعلم)


[1] ۴/النساء:۱۲۔  

[2]  ۴/النساء:۱۷۶۔  

[3]  صحیح بخاری، الفرائض: ۶۷۳۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:295

محدث فتویٰ

تبصرے