سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(337) بہنوں اور بھائیوں میں تقسیم؟

  • 19986
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 711

سوال

(337) بہنوں اور بھائیوں میں تقسیم؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت نے اپنی زندگی میں چھ مرلہ پلاٹ فروخت کر کے اس کی قیمت استعمال کر لی ہے لیکن وہ خریدنے والوں کے نام انتقال نہیں کرا سکی، اب وہ فوت ہو گئی ہے اور اس کا ایک مکان ہے جو اس نے ترکہ میں چھوڑا ہے، اس کی سات بیٹیاں اور دو بہن بھائی ہیں جو باپ کی طرف سے ہیں، متروکہ جائیداد کی تقسیم کس طرح ہو گی؟ جب کہ اس کے بہن بھائی اس کے پلاٹ سے بھی حصہ مانگتے ہیں جو فروخت ہو چکا ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا حل بتائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان اپنی زندگی میں جو چیز فروخت کر دیتا ہے وہ اس کا مالک نہیں رہتا، پلاٹ کا بھی یہی معاملہ ہے وہ اس نے فروخت کر کے اس کی قیمت استعمال کر لی ہے، اگر اس کا انتقال نہیں ہوا تو یہ ایک قانونی معاملہ ہے۔ شرعی ورثاء کو چاہیے کہ وہ فروخت شدہ پلاٹ سے اپنا حصہ مانگنے کی بجائے خریدار کے نام اس کا انتقال کرائیں، کیونکہ وہ پلاٹ مرحومہ کا نہیں ہے بلکہ اس نے اپنی زندگی میں اسے فروخت کر کے اس کی قیمت استعمال کر لی ہے اور اسے اپنی ملکیت سے نکال دیا ہے، اب صرف وہ جائیداد تقسیم ہو گی جو مرنے کے وقت اس کے قبضہ میں تھی اور اس کی مالک تھی۔ سوال سے معلوم ہوا ہے کہ مرحومہ کا ترکہ صرف ایک مکان ہے جس میں وہ رہائش پذیر تھی، اب وہی مکان شرعی ورثاء میں تقسیم ہو گا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: مرحومہ کی سات بیٹیوں کو مکان کا 2/3 ملے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ ﴾[1]

’’اگر میت کی صرف لڑکیاں ہی ہیں اور وہ دو سے زیادہ ہیں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا۔‘‘

 لڑکیوں کو حصہ دینے کے بعد جو 1/3 باقی بچے گا وہ پدری بہن بھائیوں میں تقسیم ہو گا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ اِنْ كَانُوْۤا اِخْوَةً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ١﴾[2]

’’اگر میت کے بہن بھائی مرد اور عورتیں دونوں قسم کے ہیں تو مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ دیا جائے گا۔‘‘

 سہولت کے پیش نظر متروکہ جائیداد کے تریسٹھ (۶۳) حصے کیے جائیں، ان میں سے دو تہائی یعنی بیالیس حصے سات بیٹیوں کے ہیں، ہر بیٹی کو چھ چھ حصے دئیے جائیں۔ باقی اکیس حصے اس طرح تقسیم کیے جائیں کہ بھائی کو بہن کے مقابلہ میں دو حصے ملیں یعنی بھائی کو چودہ اور بہن کو سات دینا ہوں گے۔ بہرحال وہ پلاٹ جو مرحومہ نے اپنی زندگی میں فروخت کر کے اس کی قیمت استعمال کر لی ہے، اس میں شرعی ورثاء کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  ۴/النساء:۱۱۔  

[2] ۴/النساء:۱۷۶۔  

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:293

محدث فتویٰ

تبصرے