السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک گاڑی میں ماں، بیٹا اور اس کی بیوی سوار تھے، کار کو حادثہ پیش آ گیا، نتیجہ میں تینوں فوت ہو گئے۔ اب ان کے ترکہ کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ کیا مرنے والے ایک دوسرے کے وارث ہوں گے یا زندہ کو ہی ان کا وارث بنایا جائے گا؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کا حل پیش کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے ہاں اجتماعی اموات کے واقعات عام طور پر وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں، مثلا چند افراد دیوار کے نیچے آ گئے یا پانی میں ڈوب گئے یا آگ میں جل گئے یا کسی معرکہ میں کام آ گئے یا کہ بس، ہوائی جہاز اور ریل گاڑی کے حادثہ میں ہلاک ہو گئے۔ ایسے حالات میں جب دو یا دو سے زیادہ ایک دوسرے کا ترکہ لینے والے یکبار اکٹھے فوت ہو جائیں تو پتہ نہ چل سکے کہ ان میں پہلے کون فوت ہوا اور بعد میں کس کو موت آئی ہو تو اس صورت میں فوت شدگان آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے بلکہ ان میں سے ہر ایک کا ترکہ ان کے زندہ ورثاء کو دیا جائے گا اور ان کے درمیان ہی تقسیم ہو گا کیونکہ کسی کو وارث بنانے کے لیے یہ بنیادی شرط ہے کہ وہ دوسرے کی موت کے وقت زندہ موجود ہو لیکن اجتماعی اموات میں یہ شرط مفقود ہے ہاں اگر یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ ایک شخص دوسرے سے پہلے فوت ہوا تھا، اس میں کوئی بھول اور شک نہ ہو تو بعد میں فوت ہونے والا پہلے مرنے والے کا وارث ہو گا کیونکہ مورِّث کی موت کے وقت وارث کا زندہ ہونا یقینی طور پر معلوم ہے بصورت دیگر اگر ایک دوسرے کی موت کا پہلے یا بعد میں ہونا معلوم نہ ہو سکے تو ایسے حالات میں اجتماعی حادثہ میں مرنے والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہیں حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جنگ یمامہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے طاعون عمواس میں مرنے والوں کے متعلق حکم دیا کہ :’’زندوں کو فوت شدہ حضرات کا وارث بنائیں اور انہیں آپس میں ایک دوسرے کا وارث بنائیں۔‘‘ [1]
بہرحال اجتماعی حادثہ میں فوت ہونے والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے بلکہ زندہ ورثاء میں ان کا ترکہ تقسیم کیا جائے گا اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے طاعون عمواس میں مرنے والے کو ایک دوسرے کے وارث بنایا تھا لیکن امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی روایات کو منقطع قرار دیا ہے جو ناقابل اعتبار ہیں۔ [2]
[1] البیہقی،ص: ۲۲۲،ج۶۔
[2] بیہقی،ص: ۲۲۲،ج۶۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب