سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(332) مشترکہ مال سے حاصل ہونے والے پلاٹ کی تقسیم

  • 19981
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 574

سوال

(332) مشترکہ مال سے حاصل ہونے والے پلاٹ کی تقسیم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے بھائی کے ساتھ ہمارے علاقہ کے پٹواری کا لڑکا پڑھتا تھا، اس نے اپنے والد سے سفارش کی کہ انہیں رہائش کے لیے ایک پلاٹ دے دیا جائے، اس طرح میرے بھائی کو سفارش سے ایک پلاٹ رہائش کے لیے مل گیا اور ہمارے والد گرامی کے نام ہو گیا، ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ ہمارے وہ بھائی فوت ہو چکے ہیں جن کی سفارش سے پلاٹ ملا تھا، اب اس کی اولاد کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ پلاٹ ہمارے باپ کی محنت اور کوشش کاثمرہ ہے لہٰذا ہم اس کے حقدار ہیں، واضح رہے کہ جب پلاٹ ہمارے باپ کے نام ہوا تھا اس وقت ہمارے بھائی کی شادی نہیں ہوئی تھی، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

والد کی زندگی میں اس کے چھوٹے بڑے لڑکے جو کمائی کرتے ہیں وہ باپ کی ہی شمار ہوتی ہے ہاں اگر کسی لڑکے کی شادی ہو جائے اور وہ اپنے بال بچوں کو الگ رکھتا ہو اور علیحدہ طور پر کھاتا پیتا ہو تو اس صورت میں اس کی کمائی اپنی شمار ہو گی، اگر شادی سے پہلے اپنے باپ کے ہمراہ جو کمائی کرتا ہے تو وہ سب باپ کے لیے ہو گا اور اس کی ملکیت شمار کیا جائے گا، صورت مسؤلہ میں بھائی کے بچوں کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ یہ پلاٹ ہمارے باپ کی سفارش سے حاصل ہوا تھا، یہ ہمارا ہے اور ہم ہی اس کے حقدار ہیں، ایک حدیث میں اس امر کی صراحت ہے: ’’تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔‘‘ [1]

 اس حدیث کے پیشِ نظر بچوں کی کمائی شرعی اور معاشرتی طور پر باپ کی شمار ہو گی، اگر اس کی بیوی زندہ نہیں ہے تو باپ کی جائیداد کو آٹھ حصوں میں تقسیم کر دیا جائے ان میں دو، دو حصے ہر لڑکے کو اور ایک ایک حصہ لڑکیوں کے لیے ہو گا، اپنے دادا کی جائیداد سے اس کے پوتے اور پوتیاں محروم ہوں گے جب کہ مرحوم کی حقیقی اولاد موجود ہے، ہمارے رجحان کے مطابق اس طرح کے معاملات کو وجہ نزاع نہ بنایا جائے بلکہ افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا جائے۔ بچوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے انہیں کچھ نہ کچھ ضرور دیا جائے تاکہ یتیم بچے کس مپرستی کا شکار نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ (واللہ اعلم)


[1] ابوداود، البیوع: ۳۲۵۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:289

محدث فتویٰ

تبصرے