سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(331) وصیت پوری کرنا

  • 19980
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 772

سوال

(331) وصیت پوری کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی کے تین وارث زندہ ہیں، بیوی، بیٹی اور پوتا۔ اس نے ان کے حق میں وصیت نامہ لکھا ہے کہ میری کل جائیداد سے 33% بیوی کو، 33% بیٹی کو اور 44% پوتے کو دے دیا جائے، کیا یہ وصیت جائز ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی انسان کو ورثاء کی موجودگی میں اپنے سارے مال کی وصیت کرنا ناجائز ہے، مال کی تقسیم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ضابطہ میراث نازل فرمایا ہے، مرنے کے بعد اس ضابطہ میراث کے مطابق اس کا مال تقسیم ہو گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ صدقہ کیا ہے کہ تم اپنے مال سے ایک تہائی کی وصیت کر سکتے ہو تاکہ تمہاری نیکیوں میں اضافہ کا باعث ہو نیز تمہارے نیک اعمال زیادہ ہونے کا باعث ہو۔‘‘ [1]

 اس حدیث کے پیش نظر انسان اپنے مال سے زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ تک وصیت کر سکتا ہے لیکن وہ وصیت بھی کسی غیر وارث کے لیے ہو۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے اب کسی وارث کے لیے کوئی وصیت جائز نہیں۔ [2]

 صورت مسؤلہ میں دو غیر شرعی چیزیں ہیں: ایک تو اپنے تمام مال کی وصیت کی ہے جو کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ دوسری شرعی ورثاء کو وصیت کی گئی ہے جو مندرجہ بالا حدیث کی خلاف ورزی ہے۔ ان دو غیر شرعی باتوں کی وجہ سے یہ وصیت کالعدم ہو گی اس کی اصلاح ضروری ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَيْهِ١ ﴾[3]

’’اگر کسی کو وصیت کرنے والے کی طرف سے طرفداری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو تو وہ اگر وارثوں کے درمیان صلح کر دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘

 چونکہ اس وصیت میں اپنے ورثاء کے متعلق طرفداری اور حق تلفی کی گئی ہے لہٰذا اس کی اصلاح ضروری ہے، اس کی اصلاح یہ ہے کہ اسے کالعدم قرار دیا جائے اور مرنے کے بعد درج ذیل شرح کے مطابق اس کی جائیداد تقسیم ہو گی۔

٭ اولاد کی موجودگی میں اس کی بیوی کو کل جائیداد سے آٹھواں حصہ دیا جائے گا۔

٭ اس کی بیٹی چونکہ ایک ہے اس لیے وہ اس کی جائیداد سے نصف کی حقدار ہو گی۔

٭ پوتا عصبہ ہے لہٰذا ورثاء سے جو مال بچے گا وہ پوتے کو مل جائے گا۔ سہولت کے پیش نظر اس کی جائیداد کے کل چوبیس حصے ہوں گے، ان میں سے آٹھواں یعنی تین حصے بیوی کو، آدھا یعنی بارہ حصے بیٹی کو اور باقی نو حصے پوتے کو مل جائیں گے۔ یہ تقسیم اس صورت میں ہو گی جب صاحب جائیداد کی وفات کے وقت اس کے مذکورہ بالا ورثاء زندہ ہوں، اگر کوئی رشتہ دار اس کی زندگی میں فوت ہو گیا تو وہ خود بخود اس کی جائیداد سے محروم ہو جائے گا۔ (واللہ اعلم)


[1]  ابن ماجہ، الوصایا: ۲۷۰۹۔ 

[2]  ترمذی، الوصایا: ۲۱۲۱۔

[3] ۲/البقرۃ: ۱۸۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:288

محدث فتویٰ

تبصرے