السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بیوی نے خاوند کو قتل کر دیا اور مرنے والے کا ایک بیٹا اور والدہ موجود ہے، عورت نے آگے نکاح کر لیا ہے۔ کیا اسے مرحوم خاوند کی جائیداد سے حصہ ملے گا، نیز بتائیں کہ اس صورت میں ماں کو کل ترکہ سے کیا ملے گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت اسلامیہ میں قاتل، مقتول کی جائیداد سے محروم ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’قاتل کسی چیز کا وارث نہیں بن سکتا۔‘‘ [1]
ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ ’’قاتل کو مقتول کی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا۔‘‘ [2]
ان احادیث کی روشنی میں علمائے امت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قتل، وراثت کے حصول میں رکاوٹ ہے اور قاتل، مقتول کا وارث نہیں ہو گا، اگرچہ کچھ اہل علم نے یہ تفریق کی ہے کہ اگر قتل خطا ہو تو وارثت سے محرومی کا باعث نہیں ہے لیکن ہمارے رجحان کے مطابق اس تفریق کی کوئی دلیل نہیں ہے لہٰذا ہر حال میں قاتل کو مقتول کی جائیداد سے محروم کیا جائے گا، صورت مسؤلہ میں اپنے خاوند کو قتل کرنے والی بیوی کو خاوند کی جائیداد سے محروم کیا جائے گا خواہ وہ آگے شادی کر لے یا ویسے بیٹھی رہے، مقتول کے ورثاء ایک بیٹا اور اس کی والدہ ہیں، اولاد کی موجودگی میں ماں کو چھٹا حصہ ملتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لِاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ ﴾[3]
’’اگر میت کی اولاد بھی ہو اور والدین بھی تو والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔‘‘
جائیداد سے ماں کا چھٹا حصہ نکالنے کے بعد جو 5/6 بچا ہے وہ اس کے بیٹے کا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’مقررہ حصہ، حقداروں کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے قریبی مذکررشتہ دار کا ہے۔‘‘ [4]
صورت مسؤلہ میں میت کا قریبی مذکر رشتہ دار اس کا بیٹا ہے، لہٰذا ماں کا حصہ نکالنے کے بعد باقی ترکہ کا وارث اس کا بیٹا ہو گا۔ (واللہ اعلم)
[1] ابوداود، الدیات: ۴۵۶۳۔
[2] بیہقی،ص: ۲۲۰،ج۶۔
[3] ۴/النساء: ۱۱۔
[4] بخاری، الفرائض: ۶۷۳۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب