سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(329) ورثاء بیوہ،بہن اور مادری بھائی ہوں تو تقسیم؟

  • 19978
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 873

سوال

(329) ورثاء بیوہ،بہن اور مادری بھائی ہوں تو تقسیم؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی فوت ہوا، اس کی بیوہ، دو حقیقی بہنیں اور ایک مادری بھائی زندہ ہے، اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہو گی؟ واضح رہے کہ فوت ہونے والا لاولد تھا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال فوت ہونے والا لا ولد تھا، اس بنا پر اس کی بیوی کو کل جائیداد سے چوتھا حصہ ملے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ١ۚ ﴾[1]

’’اور جو ترکہ تم چھوڑ جاؤ، اس میں سے بیویوں کے لیے چوتھائی ہے اگر تمہاری اولاد نہ ہو۔‘‘

 دو حقیقی بہنیں کل جائیداد سے دو تہائی کی حقدار ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اِنِ امْرُؤٌا هَلَكَ لَيْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَهٗۤ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ١ۚ وَ هُوَ يَرِثُهَاۤ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهَا وَلَدٌ١ فَاِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَ١﴾[2]

’’اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لیے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہو گا اگر اس کی اولاد نہ ہو، اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل ترکہ سے دو تہائی ملے گا۔‘‘

 مادری بھائی کو مرحوم کی جائیداد سے چھٹا حصہ ملے گا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

﴿وَ اِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّ لَهٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ١ۚ﴾[3]

’’جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے۔‘‘

 واضح رہے کہ آیت کریمہ میں بہن بھائی سے مراد مادری بہن بھائی ہیں، کیونکہ حقیقی یا پدری بہن بھائیوں کی وراثت کا بیان اس سورت کے آخر میں بیان ہوا ہے، صورت مسؤلہ میں میت کی جائیداد کے بارہ حصے کیے جائیں، ان میں سے تین حصے بیوہ کو، آٹھ حصے حقیقی بہنوں کو اور دو حصے مادری بھائی کو دئیے جائیں، جب ان حصص کو جمع کیا تو یہ تیرہ حصے بن جاتے ہیں جب کہ مرحوم کی جائیداد کے کل بارہ حصے تھے، اب تمام ورثاء کے حصوں میں تھوڑی تھوڑی کمی کر کے کل جائیداد کو تیرہ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ علم فرائض کی اصطلاح میں اسے عول کہتے ہیں، عول کے مسئلہ میں حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اتفاق ہے، صورت مسؤلہ اس طرح ہو گی:

 میت 13/12 بیوی 3=1/4 دو حقیقی بہنیں  8=2/3 ایک مادری بھائی  2=1/6 (واللہ اعلم)


[1] ۴/النساء:۱۲۔  

[2]  ۴/النساء:۱۷۶۔ 

[3]  ۴/النساء:۱۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:287

محدث فتویٰ

تبصرے