سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(325) نواسا،نواسی کا وارث ہونا

  • 19974
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 691

سوال

(325) نواسا،نواسی کا وارث ہونا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی کی زندگی میں اس کی شادی شدہ صاحب اولاد بیٹی فوت ہو گئی، اس کے بعد وہ خود بھی فوت ہو گیا، اس کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا زندہ ہے جب کہ فوت شدہ بیٹی کا ایک بیٹا اور بیٹی بھی موجود ہے بیوی بھی حیات ہے، اس صورت میں فوت ہونے والے کی جائیداد کس طرح تقسیم ہو گی؟ اس کا نواسا اور نواسی بھی دعویدار ہیں کہ ہمیں بھی اس جائیداد سے حصہ دیا جائے۔ کتاب و سنت کے مطابق اس کا حل بتائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن و حدیث کے مطابق جائیداد کی تقسیم کا ایک اصول یہ ہے کہ میت کے ساتھ اگر کسی کا قریبی رشتہ ہے تو اس کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محرم ہوتا ہے مثلاً بیٹے کی موجودگی میں اس کا پوتا اور بیٹی کی موجودگی میں اس کا نواسا وغیرہ محروم ہوتے ہیں، چونکہ صورت مسؤلہ میں میت کے قریبی رشتہ دار بیٹا اور بیٹیاں موجود ہیں اس لیے ان کی موجودگی میں نواسا اور نواسی محروم ہیں، ہاں اگر ان کی والدہ مرحوم کی وفات کے بعد فوت ہوتی تو نواسے اور نواسی کو اپنی ماں کا حصہ ملنا تھا لیکن وہ اپنے باپ کی زندگی میں فوت ہو گئی لہٰذا اسے یا اس کی اولادکو محروم کی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا، سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم کی وفات کے بعد اس کی بیوی، بیٹا اور بیٹیاں زندہ ہیں، انہیں حسب ذیل تفصیل سے حصہ دیا جائے گا۔

٭ خاوند اگر صاحب اولاد ہو تو اس کی جائیداد سے ایک بیوی یا متعدد بیویوں کو آٹھواں حصہ ملتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾[1]

’’اگر تمہاری اولاد ہے تو بیویوں کے لیے آٹھواں حصہ ہے۔‘‘

٭ بیوی کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد باقی جائیداد اولاد میں اس طرح تقسیم کی جائے کہ بیٹے کو بیٹی کے مقابلہ میں دو گنا حصہ ملے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِۚ﴾[2]

’’اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہو گا۔‘‘

٭ آسانی کے پیش نظر کل جائیداد کے آٹھ حصے کر لیے جائیں، ان میں سے ایک بیوی کو، دو حصے بیٹے کو اور ایک حصہ ہر بیٹی کو دے دیا جائے، نواسا اور نواسی کو اس جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا، اگر مرحوم کی اولاد اپنی طرف سے کچھ دینا چاہیں تو الگ بات ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] ۴/النساء:۱۲۔ 

[2]  ۴/النساء:۱۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:284

محدث فتویٰ

تبصرے