السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک لڑکی کی شادی اس کے چچا زاد سے ہوئی، عرصہ بیس سال سے کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی، اب وہ فوت ہو گئی ہے اس کے ورثاء میں سے صرف ایک خاوند ہے اور اس کی پھوپھی بھی زندہ ہے، اس صورت میں اس کے ترکہ کا کون حقدار ہو گا، کیا پھوپھی کو کچھ ملے گا یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسؤلہ میں فوت ہونے والی لڑکی لا ولد ہے، اس کا خاوند نصف ترکہ کا حقدار ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ١ۚ ﴾[1]
’’اور تمہارے لیے نصف ہے اس ترکہ سے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی اولاد نہ ہو۔‘‘
خاوند کو نصف دے کر جو باقی بچا ہے اس کاحقدار بھی خاوند ہے کیونکہ وہ اس کا قریبی مذکر رشتہ دار ہے، عصبہ ہونے کی حیثیت سے وہ باقی جائیداد کا حقدار ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’مقرر حصہ حقداروں کو دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے قریبی مذکر رشتہ د ار کا ہے۔‘‘ [2]
اس صورت میں خاوند نے دو جہتوں سے حصہ لیا ہے ایک جہت مقررہ حصہ لینے کی ہے اور دوسری جہت باقی ماندہ ترکہ لینے کی ہے، کیونکہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا قریبی رشتہ دار نہیں ہے، پھوپھی کو کچھ نہیں ملے گا، شریعت میں اس کا کوئی حصہ نہیں لہٰذا وہ محروم ہے، مختصر یہ کہ مرنے والی عورت کا تمام ترکہ خاوند لے گا۔ واللہ اعلم)
[1] ۴/النساء:۱۲۔
[2] صحیح بخاری، الفرائض: ۶۷۷۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب