السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عمر علی لا ولد فوت ہوا ہے۔ پسماندگان میں اس کی والدہ، تین مادری بھائی، حقیقی چچا کی اولاد اور پدری چچا موجود ہے، اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہو گی؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال عمر علی جو لا ولد ہے، اس کی والدہ کو اس کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد سے چھٹا حصہ ملے گا کیونکہ اس کے متعدد بھائی زندہ موجود ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ﴾[1]
’’اگر میت کے بہن بھائی (متعدد) ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہے۔‘‘
تین مادری بھائیوں کو کل ترکہ سے ایک تہائی ملے گا اور وہ سب اس حصہ میں برابر کے شریک ہوں گے فرمان الٰہی ہے:
﴿فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ﴾[2]
’’اور اگر (مادری) بہن بھائی زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔‘‘
ماں کا چھٹا حصہ اور مادری بھائیوں کا ایک تہائی حصہ نکال کر باقی جائیداد کا مالک مرحوم کا پدری چچا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کے حصے دے کر جو جائیداد باقی بچے وہ میت کے مذکر قریب رشتہ دار کے لیے ہے۔‘‘ [3]
صورت مسؤلہ میں میت کے مذکر قریبی رشتہ دار اس کے پدری چچا ہیں، حقیقی چچا کی اولاد اس سے محروم ہو گی کیونکہ پدری چچا کے مقابلہ میں حقیقی چچا کی اولاد کا تعلق دور کا ہے، اس لیے ان کی موجودگی میں حقیقی چچا کی اولاد کو کچھ نہیں ملے گا سہولت کے پیش نظر جائیداد کے بارہ حصے کر لیے جائیں، پھر درج ذیل تفصیل کے مطابق اسے تقسیم کر دیا جائے۔
ماں کا حصہ: 12 کا 1/6 = 2
مادری بھائیوں کا حصہ: 12 کا 1/3 = 4
میزان: 6
باقی 12+6+6 باقی6 حصے پدری چچا کے ہیں۔
[1] ۴/النساء:۱۱۔
[2] ۴/النساء:۱۲۔
[3] صحیح بخاری، الفرائض: ۶۷۳۶۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب