سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(314) شفعہ کا حق دار کون ہے؟

  • 19963
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1473

سوال

(314) شفعہ کا حق دار کون ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا شفعہ صرف زمین یا مکان میں ہوتا ہے؟ نیز شفعہ کا حقدار کون ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریک کے اس حصے کو مقررہ معاوضہ کے بدلے شریک کی طرف منتقل کرنا جو اجنبی کی طرف منتقل ہو گیا تھا، شفعہ کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس چیز میں شفعہ کا فیصلہ دیا ہے جو تقسیم نہ ہوئی ہو۔ [1]

 شفعہ کا سبب صرف شراکت ہے اور وہ ہر چیز میں عام ہے، زمین ہو یا گھر یا پانی کی ندی ہو۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چیز میں شفعہ کا فیصلہ فرمایا ہے۔ [2]

 احادیث کی رو سے پڑوسی کے لیے شفعہ کا حق بشرطیکہ ان کے گھر کا راستہ ایک ہو جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہمسایہ اپنے ہمسائے کا شفعہ میں زیادہ حقدار ہے، شفعہ کی وجہ سے اس کا انتظار کیا جائے گا اگرچہ وہ غائب ہو بشرطیکہ دونوں کا راستہ ایک ہو۔‘‘ [3]

 یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ مجرد ہمسائیگی کے ذریعے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے مشترک راستہ ہونا ضروری ہے، اس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے: ’’جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں ہوتا۔‘‘ [4]

 ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب گھر تقسیم کر دیا جائے اور اس کی حد بندی کر دی جائے تو اس میں کوئی حق شفعہ نہیں ہے۔‘‘ [5] ہمارے ہاں یہ غلط رواج ہے کہ اگر کسی نے گھر یا پلاٹ خریدا ہے تو کھیوٹ کھتونی میں شراکت رکھنے والا کوئی بھی شفعہ کر سکتا ہے اگرچہ وہ اس کا ہمسایہ نہ ہو، بہرحال اگر گھر یا پلاٹ کی حد بندی ہو چکی ہو اور راستے متعین ہوں تو اس میں شفعہ نہیں ہو سکتا۔ (واللہ اعلم)


[1]  صحیح بخاری، الشفعہ: ۵۲۲۔

[2] ابوداود، البیوع: ۳۵۱۳

[3]    ابوداود، البیوع: ۳۵۱۸۔  

[4] بخاری الشفعہ: ۲۲۵۷۔

[5] ابوداود، البیوع: ۳۵۱۵۔  

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:276

محدث فتویٰ

تبصرے