سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(310) بولی لگانا

  • 19959
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2539

سوال

(310) بولی لگانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سبزی منڈیوں میں سبزیوں اور فروٹ وغیرہ کی بولی ہوتی ہے، کیا اس طرح خریدوفروخت جائز ہے؟ آڑھتی حضرات فروخت کار اور خریدار دونوں سے کمیشن لیتے ہیں، اس کی حیثیت کیا ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بولی دے کر خریدوفروخت کرنا جائز ہے، اسے نیلامی کی بیع کہا جاتا ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواز کے متعلق مستقل ایک عنوان کے تحت باب قائم کیا ہے، انہوں نے عطاء بن ابی رباح کا قول نقل کیا ہے کہ اسلاف مال غنیمت کو نیلام کرنے میں کوئی حرج نہیں خیال کرتے تھے۔ جو قیمت زیادہ لگاتا وہ اسے خرید لیتا[1] البتہ اس میں شرط یہ ہے کہ مال لینے کی نیت ہو، محض بھاؤ بڑھانا مقصود نہ ہو اگر ایسا ہے تو نیلامی ناجائز ہے۔ جیسا کہ ہمارے ہاں تجارتی منڈیوں میں تاجر حضرات ایسے ایجنٹ مقرر کر دیتے ہیں، جن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر ممکن خریدار کو دھوکہ دے کر زیادہ قیمت دینے پر آمادہ کرتے ہیں۔ ایسے ایجنٹ بعض اوقات خریدار کی موجودگی میں مطلوبہ چیز کی قیمت بڑھا کر خریدار بنتے ہیں حالانکہ یہ لوگ خریدار نہیں ہوتے بلکہ محض بھاؤ بڑھانے کے لیے نیلامی میں حصہ لیتے ہیں۔ شریعت اس طرح کی دھوکہ دہی کو جائز قرار نہیں دیتی البتہ سودا لینے کی نیت سے نیلامی میں حصہ لینا جائز ہے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پرانا ٹاٹ اور پیالہ نیلام کیا، ایک شخص نے ان کی بولی ایک درہم لگائی۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ اعلان کرنے پر دوسرے شخص نے دودرہم بولی لگائی۔ پھر آپ نے وہ دونوں چیزیں دو درہم کے عوض اس کے حوالے کر دیں۔ [2]

 اس سلسلہ میں ایک روایت پیش کی جاتی ہے جس میں نیلامی کی ممانعت کا ذکر ہے لیکن وہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ امام بخاری کے عنوان سے یہ اشارہ ملتا ہے۔ [3]

 آڑھتی حضرات چونکہ فروخت کار اور خریدار دونوں کو سہولیات فراہم کرتے ہیں، اس لیے ان کا دونوں طرف سے کمیشن لینا بھی جائز ہے لیکن اس سلسلہ میں درج ذیل قباحتوں سے اجتناب کیا جائے۔

1)  آڑھتی حضرات خریداری سے پہلے یا فروخت ہونے کے بعد سبزی یا فروٹ سے کچھ اٹھا لیتے ہیں، یہ سراسر ناجائز اور زیادتی ہے جب انہوں نے دونوں طرف سے کمیشن لینا ہے تو یہ سبزی اور پھل کس چیز کے عوض لیا جاتا ہے۔ اگر نیلامی سے قبل اٹھایا جائے تو فروخت کار کی حق تلفی اور اگر نیلامی کے بعد فروخت شدہ مال سے کچھ رکھا جائے تو ایسا کرنا خریدار سے زیادتی کرنا ہے۔

2) بعض دفعہ کسی رفاہی کام کے لیے کمیشن کے علاوہ پانچ دس روپے فی صد کے حساب سے لیے جاتے ہیں، مثلاً مسجد بنانا یا کوئی پمپ لگانا ہے تو اس کے لیے اس طریقہ سے چندہ جمع کیا جاتا ہے، ایسا کرنا بھی جائز نہیں ہے البتہ اس قسم کے کار خیر میں حصہ لینے کی ترغیب تو دی جا سکتی ہے، کہ اپنی مرضی سے ہر کوئی جتنا چاہے اس رفاہی کام میں حصہ ڈال دے لیکن طے شدہ رقم کاٹ لینا جائز نہیں ہے۔

3)  دھوکہ اور فراڈ بھی نہیں کرنا چاہیے، بعض دفعہ فروٹ کی پیٹی کے اوپر اچھا پھل ہوتا ہے لیکن اس کے نیچے ناقص پھل اورپتے وغیرہ بھرے ہوتے ہیں، آڑھتی حضرات کو اس کا علم ہوتا ہے۔ ہر قسم کے عیب کو ظاہر کر دیا جائے۔ یا پھل وغیرہ کی ڈھیری لگا کر نیلامی کی جائے تاکہ لینے والے پر اس کے عیوب ظاہر ہو جائیں۔

 4)  بعض دفعہ آڑھتی حضرات اپنا مال منڈی میں نیلامی پر فروخت کرتے ہیں اور بولی کے وقت کچھ ایجنٹ چھوڑے ہوتے ہیں جو بھاؤ کو زیادہ کرنے کے لیے بولی زیادہ لگاتے ہیں، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے، اس قسم کی بولی ناجائز اور حرام ہے کیونکہ اس میں دھوکہ دہی اور فراڈ ہے جس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ اگر مذکورہ خرابیوں سے اجتناب کیا جائے تو نیلامی کی خریدو فروخت میں کوئی حرج نہیں ہے، شریعت نے اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی ہے۔ (واﷲ اعلم)


[1]  صحیح بخاری، باب البیوع: ۵۹۔  

[2]  جامع ترمذی، البیوع۔

[3]    فتح الباری، ص: ۴۴۸، ج۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:274

محدث فتویٰ

تبصرے