سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(307) سیونگ کھاتے میں رقم سے منافع لینا

  • 19956
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-15
  • مشاہدات : 918

سوال

(307) سیونگ کھاتے میں رقم سے منافع لینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بینک والے سیونگ کھاتے میں رکھے ہوئے سرمایہ پر منافع دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ اسے کاروبار میں لگاتے ہیں، کیا یہ منافع سود کے ضمن میں آتا ہے، اس کے متعلق تفصیلی فتویٰ درکار ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بینک میں عام طور پر ہر دو قسم کے کھاتے ہوتے ہیں، ایک کرنٹ کھاتہ اور دوسرا سیونگ کھاتہ، کرنٹ میں رکھی گئی رقم پر بینک کسی قسم کا نفع دیتا اورنہ ہی اس سے زکوٰۃ کی رقم کاٹی جاتی ہے، البتہ بینک اس رقم کو اپنے استعمال میں ضرور لاتا ہے اور اسے دوسروں کو سود پر دیتا ہے، ہمارے رجحان کے مطابق اس کھاتے کے ذریعے گناہ اور ظلم پر بینک کا تعاون کیا جاتا ہے جس کی قرآن میں ممانعت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١۪ ﴾[1]

’’نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، ظلم اور گناہ میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘

 اگرچہ کرنٹ کھاتے میں رکھی ہوئی رقم پر اس کے اصل مالک کو کچھ نہیں دیا جاتا تاہم اس رقم کو سودی کاروبار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بینک میں دوسرا کھاتہ سیونگ کہلاتا ہے، اس رقم پر اصل مالک کو سود بھی دیا جاتا ہے جسے بینک والے منافع کا نام دیتے ہیں لیکن نام کی تبدیلی سے حقیقت نہیں بدل جاتی، لوگوں کو پھانسنے کے لیے اس کھاتے کے مختلف نام ہیں مثلاً شراکتی کھاتہ، نفع اور نقصان کی بنیاد پر شراکت داری، اس کا مشہور نام P.L.Sہے، اس کھاتے میں رکھی ہوئی رقم کو آگے بھاری سود پر دوسروں کو دیا جاتا ہے پھر اس سود کو ایک خاص شرح سے اصل مالک کے کھاتے میں جمع کر دیا جاتا ہے، اگرچہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کھاتے میں جمع شدہ رقم کو کاروبار میں لگایا جاتا ہے اور اکاؤنٹ ہولڈر کی حیثیت ایک شریک کی ہوتی ہے لیکن زمینی حقائق اس دعویٰ کے منافی ہیں، کیونکہ اس میں سودی رقم کو مارک اپ جیسے َحسین الفاظ کا نام دیا گیا ہے، بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق سیونگ کھاتے میں رکھی ہوئی رقم پر ملنے والا ’’منافع‘‘ سود ہی ہے، ایک مسلمان کو اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، اگر حکومت واقعی سودی نظام ختم کرنا چاہتی ہے تو نیک نیتی کے ساتھ اس پورے نظام کو بدلنے کا تہیہ کرے جو خالص سود پر مبنی ہے تاکہ مسلمان پوری یکسوئی کے ساتھ غیرسودی بینکاری کو کامیاب بنانے میں حصہ لیں، اﷲ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ (آمین)


[1] ۵/المائدة: ۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:271

محدث فتویٰ

تبصرے