سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(303) مقررہ وقت تک ادھار دینا

  • 19952
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 817

سوال

(303) مقررہ وقت تک ادھار دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے ایک موٹر سائیکل نقد قیمت پر مبلغ پچاس ہزار روپے میں خریدی۔ پھر میں نے اسے چھ ماہ کے ادھار پر مبلغ ستر ہزار روپے میں فروخت کر دیاہے، اس کے متعلق بتائیں کہ ایسا کرنا جائز ہے؟ بعض لوگ اسے سود کہتے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

معاملات میں اصل اباحت ہے الا یہ کہ اس کی حرمت پر واضح نص آجائے اور عبادات میں اصل حرمت ہے الا یہ کہ اس کے جواز پر واضح دلیل موجود ہو، اس اصل کی بنیاد پر ادھار کی وجہ سے قیمت زیادہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، اس کے عدم جواز پر ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ایک بیع میں دو بیع کرتا ہے، اس کے لیے دونوں میں سے کم قیمت ہے یا پھروہ سود ہے۔[1]

 حالانکہ اس صورت میں بھاؤ دو ہوتے ہیں، بیع نہیں کی جاتی ہے کہ موجودہ صورت کو حرام قرار دیا جائے۔ ہمارے نزدیک موجودہ حدیث کا مصداق بیع عینہ ہے جس کی حرمت دیگر دلائل سے ثابت ہے۔ بیع عینہ یہ ہے کہ آدمی کوئی چیز مقررہ قیمت پر معین وقت تک کے لیے فروخت کرے، پھر خریدار سے وہی چیز کم قیمت پر خرید لے کہ زائد رقم اس کے ذمے رہ جائے۔ اس کی مزید وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ میں نے آٹھ سو درہم ادھار کے عوض زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ایک غلام کی بیع کی، پھر میں نے اس غلام کو چھ سو درہم نقد کے بدلے خرید لیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تم نے بہت بری خریدوفروخت کی ہے۔[2]

 یہ اس لیے حرام ہے کہ چھ صد درہم نقد دے کر ادھار آٹھ سو درہم لیتا ہے، خریدوفروخت کردہ چیز بعینہ درمیان میں رکھ دی گئی ہے، اس صورت مسؤلہ میں اگر کسی چیز کو نقد پچاس ہزار میں خریدا ہے اور ادھار ستر ہزار میں فروخت کر دیا ہے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک کاروبار ہے جس کی بنیاد اباحت پر ہے الا یہ کہ اس کے حرام ہونے کی واضح دلیل ہو، واضح رہے کہ اس موضوع پر ہمارا تفصیلی فتویٰ اہلحدیث میں شائع ہو چکا ہے جسے فتاویٰ اصحاب الحدیث میں پڑھا جا سکتا ہے۔ جو مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد۔ لاہور سے دستیاب ہے۔ (واﷲ اعلم)


[1]    ابو داود، البیوع: ۳۴۶۱۔

[2]  بیہقی، ص: ۳۳۰، ج۵۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:268

محدث فتویٰ

تبصرے