سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(298) مشترکہ کاروبار کرنا

  • 19947
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1022

سوال

(298) مشترکہ کاروبار کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک پارٹی کو ہم نے کچھ رقم کاروبار کے لیے دی ہے وہ اس سے زرعی ادویات اور کھاد وغیرہ کا نقد اور ادھار پر کاروبار کرتے ہیں، اس پارٹی نے بینک سے سودی قرض بھی لے رکھا ہے، تاہم وہ ہماری رقم سے جو نفع کماتے ہیں اس سے نصف ہمیں دیتے ہیں، کیا یہ نفع ہمارے لیے جائز ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں ہماری راہنمائی کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اگر کوئی آدمی کسی دوسرے کو رقم دیتا ہے کہ وہ اس رقم سے کاروبار کرے اور وہ کاروبار بھی جائز اور حلال ہو پھر منافع آپس میں تقسیم کر لیا جائے تو ایسا کرنا جائز ہے، اس کاروبار میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ فقہی اصطلاح میں اس قسم کے کاروبار کو مضاربت کہا جاتا ہے، لیکن کاروبار کرنے والا کاروبار میں اپنی ایسی رقم بھی لگاتا ہے جو شرعاً حلال نہیں ہے تو اس کا جرم کاروبار کرنے والے کے لیے ہے، حلال ذرائع سے رقم حاصل کرنے والے کو کوئی گناہ نہیں ہو گا، وہ تو اپنی حلال کمائی کا نفع لیتا ہے، بینک سے قرض لینا اور پھر سود کے ساتھ واپس کرنے کا معاہدہ کرنا شرعاً ناجائز ہے کیونکہ اس طرح سودی کاروبار کو رواج دینا ہے جس کی شریعت میں اجازت نہیں ہے، ہمارے نزدیک توبینک سے سود کے بغیر بھی رقم لینا محل نظر ہے کیونکہ گندے اور نجس پانی کو فلٹر سے صاف کر کے استعمال کرنا کسی صاحب عقل وشعور کے نزدیک صحیح نہیں ہے، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ بینک کے ساتھ کسی صورت میں لین دین نہ کیا جائے کیونکہ اس کی بنیاد سود کے لینے دینے پر ہے جس کی شریعت نے کسی صورت میں اجازت نہیں دی ہے بہرحال صورت مسؤلہ میں اگر کسی نے حلال ذرائع سے کمایا ہوا پیسہ کسی دوسرے کو مضاربت کے لیے دیا ہے وہ اس سے حلال کاروبار کرتا ہے تو اس کا نفع روپیہ دینے والے کے لیے جائز اور حلال ہے اگرچہ کاروبار کرنے والا اس میں بینک کا قرض بھی شامل کرے، بینک سے سود پر قرض لینے کا گناہ کاروبار کرنے والے کو ہو گا، روپیہ دینے والا اس سے بری الذمہ ہے۔ (واﷲ اعلم)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:265

محدث فتویٰ

تبصرے