سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(296) ایام کی حالت کے روزے مسلسل یا متفرق رکھیں

  • 19945
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 820

سوال

(296) ایام کی حالت کے روزے مسلسل یا متفرق رکھیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایام کی حالت میں جو روزے رہ جائیں، انہیں رمضان کے بعد کس حد تک مؤخر کیا جا سکتا ہے؟ کیا انہیں مسلسل رکھنا ہوتا ہے یا متفرق طور پر بھی رکھے جا سکتے ہیں؟ قرآن و حدیث میں ان کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایام کے دوران جو روزے رہ جائیں ان کی قضا ضروری ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ہمیں روزوں کی قضاء کا حکم دیا جاتا تھا اور نماز کی قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ [1]

 اگر روزے کے دوران حیض شروع ہو جائے تو اس سے بھی روزہ ختم ہو جاتا ہے، جس کی قضاء بعد میں دینا ہو گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے۔‘‘ [2]

 قضاء شدہ روزوں کے متعلق بہتر ہے کہ انہیں آیندہ رمضان سے پہلے پہلے پورا کر لیا جائے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میرے ذمہ رمضان کے روزے ہوتے تھے تو میں ماہ شعبان کے علاوہ ان کی قضاء کے متعلق طاقت نہ رکھتی تھی۔[3]راوی حدیث نے اس کی وجہ بایں الفاظ بیان کی ہے:

 میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصروفیت کی وجہ سے ایسا نہ کر پاتی تھی۔[4]

 ہمارے رجحان کے مطابق حق بات یہ ہے کہ اگر استطاعت ہو تو جلدی قضا دینا ضروری ہے کیونکہ زندگی کے ایام مستعار ہیں، ان کے ختم ہونے کا علم نہیں، اس لیے اس قسم کا قرض چکانے میں جلدی کرنی چاہیے، نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﴾[5]

’’اپنے رب کی مغفرت کی طرف جلدی کرو۔‘‘

 قضا شدہ روزوں کو مسلسل رکھنا ضروری نہیں بلکہ انہیں متفرق طور پر بھی رکھا جا سکتا ہے جیساکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رمضان میں قضاء شدہ روزوں کو الگ الگ رکھ لیا جائے تو چنداں حرج نہیں ہے۔[6]حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے بھی اس قسم کا فتویٰ مروی ہے۔[7]مسلسل رکھنے کے متعلق جو روایت پیش کی جاتی ہے وہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]   صحیح مسلم، الحیض: ۳۳۵۔ 

[2] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۵۱۔

[3] مسند امام احمد،ص۱۲۴،ج:۶۔ 

[4] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۵۰۔

[5]  ۳/آل عمران: ۱۳۳۔

[6] بخاری، معلقا۔  

[7]  دارقطنی،ص: ۱۹۳،ج:۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:262

محدث فتویٰ

تبصرے