سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(292) شک اور وصال کے روزے کی حقیقت

  • 19941
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 990

سوال

(292) شک اور وصال کے روزے کی حقیقت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث میں شک اور وصال کا روزہ رکھنے کی ممانعت ہے، ان سے کون سا روزہ مراد ہے کیا احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شک کے دن روزہ سے مراد شعبان کی تیسویں کا روزہ رکھنا ہے، جب شعبان کی انتیس تاریخ کو مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آسکے اور شک پڑ جائے کہ آیا رمضان ہے یا نہیں؟ اس شک کو بنیاد بنا کر اگلے دن تیسویں شعبان کا روزہ رکھنا شک کے دن کا روزہ رکھنا ہے۔ اس کی حدیث میں سخت ممانعت ہے۔ چنانچہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جس نے مشکوک دن کا روزہ رکھا اس نے ابو القاسم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہے۔ [1]

 اس بنا پر اگر انتیس شعبان کو مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کر لیے جائیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی عید الفطر کرو، اگر مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند چھپ جائے تو شعبان کے تیس دن پورے کر لو۔ [2]

 اسی طرح حدیث میں وصال کے روزے سے ممانعت ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال سے منع فرمایا ہے۔ [3] ایک دوسری روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ممانعت کی وجہ بایں الفاظ بیان فرمائی ہے: ’’یہ عمل تو عیسائی کرتے ہیں۔‘‘ [4]

 وصال یہ ہے کہ آدمی ارادی طور پر دو یا اس سے زیادہ دن تک روزہ افطار نہ کرے، مسلسل روزہ رکھے نہ رات کو کچھ کھائے اور نہ سحری کرے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود وصال کیا کرتے تھے اور یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خصوصیت کا حامل ہے جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے: ’’تم میں میرے جیسا کون ہے؟ میں تو اس حالت میں رات گزارتا ہوں کہ میرا پروردگار مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔‘‘ [5]

 بہرحال احادیث میں شک کے دن روزہ رکھنے اور وصال کرنے کی سخت ممانعت ہے، ایک مسلمان اطاعت گزار کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)


[1]  مسند امام احمد، ص: ۴۱۵، ج۲۔ 

[2]  صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۰۹۔

[3]  صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۶۲۔

[4] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۶۱۔  

[5] بخاری، الصوم: ۱۹۶۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:259

محدث فتویٰ

تبصرے