سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(290) فوت شدہ آدمی کے متروکہ روزے

  • 19939
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 997

سوال

(290) فوت شدہ آدمی کے متروکہ روزے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا بھائی سابقہ رمضان میں فوت ہوا، مرض کے دوران اس کے کچھ روزے رہ گئے تھے، وہ روزے ہمیں رکھنے ہوں گے یا ان کی طرف سے فدیہ دے دیا جائے؟ اس کے متعلق تفصیل درکار ہے، وضاحت کر دیں تاکہ ہماری پریشانی دورہو جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فوت شدہ روزوں کو رکھنے کا اگر موقع ملے تو انہیں رکھنا چاہیے، لیکن اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے رمضان کے روزے ہوں تو اس کے سرپرست یا ولی کو وہ روزے رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کوئی شخص دوسرے کی طرف سے روزہ نہ رکھے۔ [1]

 البتہ میت نے اگر روزے رکھنے کی نذر مانی ہو اور وہ اپنی نذر کے روزے نہ رکھ سکا ہو تو اس کے قریبی رشتہ دار کو وہ روزے رکھنے ہوں گے۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری والدہ فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمے کچھ نذر کے روزے تھے تو کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں! ضرور رکھو۔‘‘ [2]

 میت کی طرف سے روزہ رکھنے کے متعلق جو احادیث آتی ہیں، انہیں بھی اسی امر پر محمول کیا جائے گا، صورت مسؤلہ میں کسی سرپرست کو میت کی طرف سے روزے رکھنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کی طرف سے فدیہ دینا ضروری ہے، اگر وہ تندرست ہو جاتا اور وہ روزے نہ رکھتا تو اور معاملہ تھا۔ (واللہ اعلم)


[1]   مؤطا امام مالک، کتاب الصیام۔

[2]  صحیح بخاری، کتاب الصیام۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:258

محدث فتویٰ

تبصرے