سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(278) نذر کا روزہ رکھنے کا اُصول

  • 19927
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 831

سوال

(278) نذر کا روزہ رکھنے کا اُصول

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری بہن نے نذر مانی تھی کہ اگر والدہ صحت یاب ہو گئی تو وہ ایک ہفتہ کے روزے رکھے گی، اللہ تعالیٰ نے میری والدہ کی صحت سے نوازا، لیکن میری بہن نے نذر کے روزے نہیں رکھے، اب وہ فوت ہو چکی ہے، کیا ہمیں اس کے روزے رکھنا ہوں گے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے نذر کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری والدہ فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمے نذر کے روزے تھے تو کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تو نے ادا کرنا تھا تاکہ اس کی طرف سے ادا ہو جاتا؟‘‘ اس عورت نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا: ’’پھر تو اپنی ماں کی طرف سے روزے رکھ۔‘‘ [1]

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے نذر کے روزے اس کے ولی کو رکھنے چاہئیں لیکن اگر اصلی فرض روزے اس کے ذمے ہوں تو انہیں رکھنا ضروری نہیں، کیونکہ نذر ماننااس کے ذمے نہ تھا بلکہ اس عورت نے خود ہی اپنے ذمہ ضروری قرار دے لیا تھا جو قرض کا درجہ حاصل کر چکی تھی اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قرض سے تشبیہ دی۔ فرض روزے شروع ہی سے اس کے ذمہ تھے اس میں نیابت صحیح نہیں ہے، جس طرح کلمہ شہادت اور نماز وغیرہ میں نیابت صحیح نہیں ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی مؤقف کو اختیار کیا ہے۔ [2]


[1] بخاری، الصوم: ۱۹۵۳۔

[2] مجموع الفتاویٰ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:250

محدث فتویٰ

تبصرے