سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(263) رمضان المبارک میں مانع حیض گولیوں کا استعمال

  • 19912
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 807

سوال

(263) رمضان المبارک میں مانع حیض گولیوں کا استعمال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضان المبارک میں پورے مہینہ کے روزے رکھنے کے لیے بعض عورتیں مانع حیض گولیاں استعمال کرتی ہیں، اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 عورت کے لیے یہی بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں جو لکھ دیا ہے، اس پر راضی اور خوش رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے سال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو وہ رو رہی تھیں اور انہوں نے عمرہ کا احرام باندھ رکھا تھا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انہیں کیا ہوا ہے، شاید انہیں حیض آ گیا ہے، انہوں نے عرض کیا: ہاں ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ’’یہ تو ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر لازم قرار دیا ہے۔‘‘ [1]

 اس حدیث کے پیش نظر خواتین کو چاہیے کہ وہ صبر سے کام لیں اور اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھیں، جب حیض کی وجہ سے نماز اور روزہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو غیر فطری راستہ اختیار نہ کریں، ایسے حالات میں اللہ کے ذکر کا دروازہ تو کھلا رہتا ہے، انہیں چاہیے کہ اللہ کا ذکر کریں، صدقہ و خیرات کریں، ان کے لیے یہ افضل ترین کام ہیں۔

 طبی لحاظ سے یہ گولیاں نقصان سے خالی نہیں ہوتیں کیونکہ حیض کا خون طبعی طور پر خارج ہوتا ہے، جب کسی طبعی چیز کو زبردستی روکنے کی کوشش کی جائے تو جسم میں اس کا منفی رد عمل ہوتا ہے، ایسی ادویات کا یہ بھی نقصان ہے کہ ان کے استعمال سے خواتین کی ماہانہ عادت خراب ہو جاتی ہے، جس بنا پر وہ اضطراب و پریشانی کا شکار رہتی ہیں، بہرحال اگر صحت کے حوالہ سے کوئی نقصان کا اندیشہ نہ ہو اور خاوند سے اجازت لے کر انہیں استعمال کیا جائے تو جواز کا فتویٰ دیا جا سکتا ہے، لیکن ہم ذاتی طور پر ان مانع حیض گولیوں کے استعمال کو پسند نہیں کرتے کیونکہ اس میں نقصان کا اندیشہ اور ایک فطری راستے کو روکنے کا ذریعہ ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، الحیض: ۲۹۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:237

محدث فتویٰ

تبصرے