سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(257) طواف کے چکروں میں مخصوص دعا پڑھنا

  • 19906
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2302

سوال

(257) طواف کے چکروں میں مخصوص دعا پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مناسک حج کے متعلق جو کتب بازار سے دستیاب ہیں، ان میں طواف کے ہر چکر کی الگ دعا لکھی ہے اور وہ دعائیں بہت لمبی لمبی ہیں، ایک عام حاجی کے لیے ان کا یاد کرنا اور انہیں پڑھنا بہت مشکل ہے، کیا واقعی صحیح احادیث سے یہ دعائیں ثابت ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حج و عمرہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی خاص دعا منقول نہیں ہے صرف رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان درج ذیل قرآنی دعا کا پڑھنا ثابت ہے: ﴿رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ ’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں نعمتیں عطا فرما اور آخرت میں بھی اپنی عنایات سے مالا مال فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔‘‘ [1]

 اسی طرح صفا مروہ اور مقام عرفہ پر کچھ اذکار کتب حدیث میں صحیح اسناد سے منقول ہیں حج یا عمرہ کرنے والے کو چاہیے کہ کتاب و سنت میں جو دعائیں منقول ہیں، انہیں پڑھتا رہے، خود ساختہ اور بناوٹی دعاؤں کے پڑھنے سے اجتناب کرے، بازار سے دستیاب کتب میں جو طواف کے ہر چکر کی خاص دعا لکھی ہوتی ہے، ان میں سے کوئی بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، انہیں پڑھنے سے کئی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ لوگ اسے مسنون دعائیں خیال کر کے پڑھتے ہیں حالانکہ سنت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، پڑھنے والے ہر چکر کے لیے ایک دعا مخصوص کر لیتے ہیں اور اگر چکر ختم ہونے سے پہلے دعا ختم ہو جائے تو چکر کے باقی حصہ میں خاموش رہتے ہیں اور اگر دعا کے پورا ہونے سے پہلے چکر ختم ہو جائے تو باقی دعا ترک کر دیتے ہیں، یہ سب نقصانات بدعت کے اختیار کرنے کی وجہ سے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مقام ابراہیم کے پاس آئے تو آپ نے وہاں ﴿وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى١ ﴾[2] پڑھا ہے لیکن جن لوگوں کے ہاتھ میں کتابچے ہوتے ہیں وہ اس مقام پر ایک لمبی چوڑی دعا بآواز بلند پڑھتے ہیں اور وہاں نماز پڑھنے والوں کی نماز میں خلل ڈالتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ اس قسم کے تمام مفاسد سے اجتناب کریں۔ (واللہ اعلم)


[1]  ابوداود المناسک: ۱۸۹۳۔

[2] ۲/البقرة: ۱۲۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:231

محدث فتویٰ

تبصرے