سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(248) بوجہ شرم مسجد حرام میں بحالت حیض نماز ادا کرنا

  • 19897
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 755

سوال

(248) بوجہ شرم مسجد حرام میں بحالت حیض نماز ادا کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اس سال حج پر گئی، دوران حج مجھے حیض آ گیا لیکن میں نے شرم کے مارے کسی کو نہ بتایا بلکہ ایسی حالت میں مسجد حرام کے اندر نمازیں ادا کیں، طواف کعبہ بھی کیا اور صفا و مروہ کی سعی بھی کی۔ اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں میری راہنمائی کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت کا اہل اسلام سے مطالبہ ہے کہ کم ازکم ضروریات دین کے متعلق معلومات حاصل کریں، جس مرد یا عورت نے حج کرنا ہے اسے چاہیے کہ حج سے پہلے اس کے متعلق واقفیت حاصل کرے۔ مکمل معلومات لینے کے بعد حج پر جائے، محکمہ مذہبی امور اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ حجاج کرام کو حج کی ٹریننگ دی جائے تاکہ وہ مکہ جا کر اندھیرے میں تیر اندازی نہ کریں، صورت مسؤلہ کس قدر تعجب انگیز ہے، اس طرح کی شرم شرعی طور پر قطعاً مستحسن نہیں ہے کیونکہ عورت جب حالت حیض میں ہوتی ہے تو اس کے لیے نماز ادا کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ خواہ وہ مکہ میں ہو یا کسی دوسری جگہ پر۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے متعلق فرمایا ہے: ’’کیا امر واقعہ نہیں ہے کہ جب وہ حائضہ ہوتی ہے تو وہ نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے۔‘‘ [1]

 تمام اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت حالت حیض میں ہو تو اسے نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے، لیکن سائلہ نے بحالتِ حیض مسجد حرام میں نمازیں ادا کی ہیں اور بیت اللہ کا طواف بھی کیا ہے۔ صفا مروہ کی سعی بھی کر ڈالی ہے، اس طرح مسجد حرام کا تقدس بھی مجروح ہوا ہے۔ بہرحال اسے چاہیے کہ وہ اپنے کیے ہوئے پر توبہ و استغفار کرے اور اللہ کے حضور اس پر اظہار ندامت کرے، حیض کی حالت میں اس کا طواف صحیح نہیں ہے، اگرچہ منیٰ، عرفات، مزدلفہ جانے اور رمی کرنے میں چنداں حرج نہیں، سائلہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ طواف زیارت کا اعادہ کرے اور صفاہ مروہ کی سعی بھی کرے، کیونکہ طواف افاضہ تو حج کا رکن ہے اس کے بغیر حج نہیں ہوتا۔ (واللہ اعلم)


[1]  صحیح بخاری، الحیض: ۳۰۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:226

محدث فتویٰ

تبصرے