سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(240) بیت اللہ کے چاروں کونے چھونا

  • 19889
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1205

سوال

(240) بیت اللہ کے چاروں کونے چھونا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عمرہ کرنے کے دوران اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ بیت اللہ کے چاروں کونوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور انہیں چومتے ہیں،ا س کی شرعی حیثیت واضح کریں، کیا بیت اللہ کے چاروں کونوں کو ہاتھ لگانا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیت اللہ کے چار کونے ہیں: 1) حجر اسود،2) رکن یمانی، 3)رکن شامی، 4)رکن عراقی۔

 حجر اسود کا استلام درج ذیل تین طریقوں میں سے کسی ایک کے ساتھ کیا جا سکتا ہے:

 1) حجر اسودکو بوسہ دینا۔ 2) چھڑی کے ذریعے حجر اسود کو چھونا پھر چھڑی کو چوم لینا۔ 3)اپنے ہاتھ سے حجر اسود کو چھونا اور پھر ہاتھ کو بوسہ دینا۔

 رکن یمانی کو صرف ہاتھ لگانا چاہیے، اسے چومنا حدیث سے ثابت نہیں ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر طواف میں رکن یمانی اور حجر اسود کا استلام کرتے تھے۔ [1]

 ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رکن یمانی اور حجر اسود کو چھونا خطاؤں کو گرا دیتا ہے۔‘‘[2]

 دوران طواف رکن شامی اور رکن عراقی کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے کیونکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا، آپ دوران طواف صرف حجر اسود اور رکن یمانی کو ہاتھ لگاتے تھے۔ [3]البتہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ بیت اللہ کے تمام کونوں کو ہاتھ لگاتے تھے اور فرماتے تھے کہ بیت اللہ کی کوئی چیز بھی متروک نہیں ہے۔ البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مؤقف ہے کہ دوران طواف صرف رکن یمانی اور حجر اسود کو ہاتھ لگانا چاہیے۔ [4]

 ہمارے رجحان کے مطابق دوران طواف صرف رکن یمانی اور حجر اسود کو ہی ہاتھ لگانا چاہیے اور اگر بوسہ دینے کا موقع ملے تو صرف حجر اسود کو چوما جائے وہ بھی اس عقیدہ کے ساتھ کہ وہ ہمارے نفع یا نقصان کا مالک نہیں ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بخاری شریف میں مروی ہے۔[5] (واللہ اعلم)


[1] نسائی، مناسک: ۲۹۴۷۔

[2] مسند امام احمد،ص:۳،ج۲۔

[3] صحیح بخاری، الحج: ۱۶۰۹۔               

[4] صحیح بخاری، الحج: ۱۶۰۹۔               

[5] صحیح بخاری، الحج: ۱۶۱۰۔  

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:221

محدث فتویٰ

تبصرے